Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا اے پروردگار ! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے
99۔ 100:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منکرین حشر و قیامت کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ یہ انکار ان لوگوں کا اسی وقت تک ہے جب تک قبض روح اور قبر اور حشر اور قیامت کا عذاب ان کے روبرو نہیں آتا جب یہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گا تو انہیں معلوم ہوجاوے گا کہ رسولوں کی معرفت اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا کہ دنیا عمل کی جگہ ہے تو یہ لوگ آخرت کی ہر سختی اور عذاب کے وقت دنیا میں واپس آنے اور نیک عمل کرنے کی خواہش ظاہر کریں گے مگر جب وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر بےوقت کی خواہش سے کیا ہوتا ہے ‘ قتادہ کا قول ہے کہ ایسے لوگوں کے حال پر بڑا افسوس ہے جو نیک عمل سے غافل ہیں اور دنیا کے دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو قیامت میں یہ موقع پیش آنے والا ہے کہ دنیا کے سب دھندوں سے زیادہ فائدہ مند ان کو عمل نیک ہی نظر آوے گا ‘ چناچہ اس آیت کے مضمون سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت ‘ وزارت ‘ مال و ادلاد کے لیے کوئی شخص دنیا میں واپس آنے کی خواہش نہ کرے گا بلکہ خواہش اور آرزو ہوگی ‘ تو فقط اتنی ہی ہوگی کہ دنیا میں جاویں اور نیک عمل کریں ‘ صحیحین کے حوالہ سے انس بن مالک کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ قبر تک قرابت دار اور مال اور عمل یہ تین چیزیں آدمی کے ساتھ جاتی ہیں اور ان میں سے دو تو پھر دنیا کی دنیا میں ہی واپس آجاتی ہیں فقط عمل آدمی کے ساتھ رہتا ہے ‘ غرض دنیا میں جس طرح آدمی کی زیست کا ٹھکانا نہیں آج ہے اور کل نہیں ‘ اسی طرح خود دنیا اور دنیا کی سب چیزوں کا بھی ٹھکانا نہیں ‘ ایک عمل ہی دنیا میں آدمی کے ساتھ جانے کی چیز ہے اور نیک لوگوں کو نیک عملوں کا ثمرہ پاتے ہوئے جب بدلوگ آخرت میں دیکھیں گے تو دنیا میں پھر آنے اور نیکی کمانے کی تمنا ان کے دل میں پیدا ہوگی ‘ ابوداود اور مسند امام احمد کے حوالہ سے براء بن العازب کی صحیح روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ نافرمان لوگوں کے آخر وقت پر خوفناک شکل کے فرشتے ایسے لوگوں کی قبض روح کے لیے آتے ہیں اور اللہ کی خفگی اور طرح طرح کے عذاب سے ایسے لوگوں کو ڈراتے ہیں جس سے ایسے لوگوں کی روح ان کے جسم میں چھپتی پھرتی ہے اور پھر نہایت سختی سے وہ فرشتے اس روح کو جسم سے نکالتے ہیں آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ ایسے لوگ موت کے وقت دنیا میں واپس آنے اور نیک عمل کرنے کی تمنا کرتے ہیں ‘ اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ قبض روح کے وقت ایسے لوگ دنیا میں رہ جانے اور نیک عمل کرنے کی تمنا کریں گے علاوہ اس کے جس وقت ایسے لوگوں کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے دوزخ کے کنارہ پر کھڑا کیا جاوے گا ‘ اس وقت بھی یہ لوگ یہی تمنا کریں گے ‘ کہ ان کو نیک عمل کرنے کے لیے دنیا میں بھیج دیا جائے چناچہ اس کا ذکر سورة الانعام میں گزر چکا ہے ‘ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ قبض روح کے وقت جب ایسے لوگوں کو عذاب کے فرشتے نظر آویں گے تو یہ لوگ اپنی حالت پر بہت پچھتا کر پہلے اللہ تعالیٰ سے اور پھر قبض روح کے فرشتوں سے دنیا میں واپس آنے اور نیک عمل کرنے کی تمنا ظاہر کریں گے جس کا جواب ان لوگوں کو یہ ملے گا کہ انتظام الٰہی کے موافق حشر کے دن تک کوئی مرا ہوا شخص قبر سے اٹھ کر دنیا میں نہیں آسکتا ‘ اس واسطے تم لوگوں کی یہ تمنا پوری نہیں ہوسکتی ‘ دو چیزوں کے بیچ میں جو چیز اٹکاؤ کی طرح ہو اس کو برزخ کہتے ہیں ‘ انسان کا قبر میں رہنے کا زمانہ دنیا اور عقبیٰ کے مابین میں ایک اٹکاؤ کا زمانہ ہے اس لیے اس کو برزخ کہا جاتا ہے حشر کے دن سب لوگ قبروں سے اٹھ کر حساب کتاب کے لیے دنیا کے ایک ٹکڑے ملک شام میں جمع ہوں گے چناچہ اس کا ذکر ترمذی اور نسائی کی معاویہ بن حیدہ کی صحیح روایت میں ہے حشر کے دن تک کسی مرے ہوئے شخص کا قبر سے اٹھ کر دنیا میں نہ آنے کا ذکر جو آیت میں ہے ‘ اس حدیث سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حشر کے دن قبروں سے اٹھ کر دنیا کے ٹکڑے ملک شام میں یہ لوگ جمع ہوں گے اس سے پہلے دنیا میں نہیں آسکتے ‘ یہ معاویہ بن حیدہ بہز بن حکیم تابعی کے دادا مشہور صحابہ میں سے ہیں۔
Top