Fi-Zilal-al-Quran - Al-Muminoon : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ” اے میرے رب ‘ مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دیجئے
حتی اذا۔۔۔۔۔۔۔ رب ارجعون (23 : 99) لعلی اعمل۔۔۔۔۔ فیماترکت (23 : 100) یہ منظر حالت نزع کا ہے۔ جب موت آتی ہے تو ہر شخص توبہ کرتا ہے۔ رجوع الی اللہ کرتا ہے ‘ یہ درخواست کرتا ہے کہ اے اللہ ایک موقعہ اور دیجئے ۔ ایک بار اور زندگی دیجئے تاکہ ہم ان کوتاہیوں کی تخصیح کرلیں اور جو اہل و عیال اور مال و دولت ہم نے چھوڑے ہیں ان میں تیری مرضی کا تصرف کریں۔ یہ ایک منظر ہے جسے سب دیکھ رہے ہیں اور مرنے والا یہ درخواست کررہا ہے اور جو اب بھی اعلانیہ آجاتا ہے۔ کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا (23 : 100) ” ہر گز نہیں ‘ یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ ہک رہا ہے “۔ یہ ایک بات ہے جو وہ کررہا ہے۔ اسکا کوئی مصداق وجود میں آنے والا نہیں ہے۔ یہ لفظ اور اس کا قائل قابل توجہ نہیں ہیں۔ یہ تو حالت خوف کی ایک چیخ ہے جو منہ سے نکل رہی ہے۔ یہ کسی اخصلاص پر مبنی نہیں ہے۔ نہ حقیقی توبہ ہے۔ مشکلات میں ہر کوئی یہ بات کرتا ہے۔ دل میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی نہ ارادہ ہوتا ہے۔ اب حالت نزع کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ بات کہنے والے اور دنیا کے درمیان پر وہ حائل ہوجاتا ہے۔ معاملہ ختم ہوگیا۔ تعلقات ختم ہوگئے۔ دروازے بند ہوگئے اور پردے گر گئے۔
Top