Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
اور (خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
61۔ 62:۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بیان فرمائی ‘ سورة یونس اور سورة الحجر میں گزر چکا ہے کہ آسمان میں بارہ برج ہیں اور ہر برج میں تیس تیس درجے ‘ سورج ہر روز میں ایک درجہ کو ایک سال میں بارہ برجوں کو طے کرتا ہے ‘ سورج کے اس دورہ سے جاڑا ‘ گرمی ‘ برسات کی فصلیں ہوتی ہیں جس دورہ کو سورج برس دن میں طے کرتا ہے اس کو چاند اٹھائیس دن میں طے کرتا ہے اور جس طرح سورج کا دورہ فصلوں کے ہے ‘ اسی طرح چاند کا دورہ مہینوں اور سال کے حساب کے لیے ہے ‘ چاند کے دورہ کے حساب سے جو بارہ مہینے پیدا ہوتے ہیں اسلام سے پہلے مشرکین مکہ نے اس حساب کو بدل ڈالا تھا ‘ ملت ابراہیمی میں جو مہینے لڑائی کی ممانعت کے تھے ‘ ان مہینوں میں اگر لڑائی کی ضرورت پڑجاتی تھی تو مثلا محرم کا نام صفر رکھ کر محرم میں لڑائی جائز کرلیتے تھے ‘ سورة التوبہ میں اس کا ذکر تفصیل سے گزر چکا ہے اور صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوبکرہ ؓ کی یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ حجتہ الوداع کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے اس رسم کو موقوف کردیا ‘ اگرچہ بعض سلف نے برجوں کے معنی تاروں کے کئے ہیں ‘ لیکن حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ برجوں کے معنی بڑے مکانوں 1 ؎ کے ہیں ‘ سورة النساء میں بروج کا لفظ مکانوں موافق رات کا دن کے بدلہ میں اور دن کا رات کے بدلہ میں آنے کا یہ مطلب ہے کہ جس شخص کی رات کی کوئی عبادت فوت ہوجاوے تو دن کو اور دن کی کوئی عبادت فوت ہوجاوے تو رات کو اسے پورا کر لیوے ‘ رات دن کے ذکر کے بعد یاد الٰہی اور شکر گزاری کا تذکرہ جو فرمایا اس سے حسن بصری کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے ‘ صحیح مسلم میں ابوذر ؓ سے روایت 2 ؎ ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر رات کو اپنی رحمت ؎ کا ہاتھ اس لیے پھیلاتا ہے کہ دن کا گنہگار رات کو توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اپنے رحمت کے ہاتھ سے اس کے گناہوں کو مٹا دیوے اور دن کو اپنی رحمت کا ہاتھ اسی طرح رات کے گناہوں کے معافی کے لیے پھیلاتا ہے ‘ رات کا دن کے بدلے اور دن کا رات کے بدلہ میں آنے کا مطلب اس حدیث کے موافق یہ ہے کہ رات کے گناہوں کی توبہ کے لیے دن اچھا بدلہ ہے اور دن کے گناہوں کی توبہ کے لیے رات اچھا بدلہ ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن جریر ص 30 ج 19 ) (2 ؎ صحیح مسلم ص 358 بروایت حضرت ابو موسیٰ ؓ (؎ حدیث کے لفظ یبسط یدہ کے ہیں جس کے معنی ہیں ” ہاتھ پھیلاتا ہے “ ” رحمت “ تاویل ہے ‘ جس کی مسلک اہلحدیث میں گنجائش نہیں ‘ بلاکیف ماننا چاہیے (ع۔ ح )
Top