Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک منور چاند بنایا
آیت 62-61 اصل ضرورت نشانیوں کی نہیں بلکہ نشانیوں سے فائدہ اٹھانی کی زیادہ کی ہے اوپر کی آیات التفات کے بعد یہ آخر میں پھر آیات آفاق کی طرف توجہ دلائی کہ جہاں تک نشانیوں کا تعلق ہے ان کی کمی نہیں ہے۔ ضروتر کسی نئی نشانی کی نہیں بلکہ نشانیوں سے فائدہ اٹھانے کے جذبے اور ارادے کی ہے۔ جن کے اندر یہ جذبہ اور ارادہ نہیں پایا جاتا وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں۔ لمن برادن یذکر اواراد شکوراً تذکر عقل کا فعل ہے اور شکر دل کا۔ اللہ تعالیٰ نے عقل اور دل کو بیدار کرنے والی نشانیوں سے اس کائنات کے چپہ چپہ کو معمو کر رکھا ہے لیکن ان سے صحیح فائدہ اٹھانا انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے اور اس ارادے کے امتحان ہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے انس ان کو پیدا کیا ہے اور اسی پر اس کے تمام شرف کا انحصار ہے اس معاملہ میں اس نے جبر کو پسند نہیں فرمایا۔ روح سے مراد جعل فی السمآء بروجاً بروج کی وفداحت سورة حجر کی آیت 16 کے تحت گزر چکی ہے۔ ہمارے نزدیک اس سے وہقلعے اور دیدبان مراد ہیں جو اس نظام کائنات میں اللہ تعالیٰ نے اس لئے بنائے ہیں کہ شیاطین جن و انس ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ ان قلعوں اور دید بانوں میں اللہ کے کردبیوں کا پہرہ رہتا ہے جو استراق سمع کرنے والے شیاطین کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ انتظام اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایا ہے کہ علماء اعلیٰ کے حدود میں اس کے مقرب فرشتوں کے سوا کسی اور کی رسائی نہ ہو سکے۔ صرف وہی ان حدود میں داخل ہوتے ہیں اور وہی اس کی روحی اور اس کی القاء کی ہوئی غیب کی خبریں اس کے نبیوں اور رسولوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس واسطہ کے سوا غیب کی باتیں معلوم کرنے کا کوئی اور واسطہ نہیں ہے اس وجہ سے غیب دانی کے دوسرے مدعی خواہ وہ کاہن و منجم ہوں یا کوئی اور ہو سب جھوٹے ہیں … یہ امر محلوظ رہے کہ اس انتظام کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے تبارک کی اسی تمہید سے فرمایا ہے جس سے سورة کا آغاز فرمایا ہے۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یکسر خیرو برکت ہونے کا یہ الزمی تقاضا ہے کہ وہ وحی کے چشمہ صافی کو ہر قسم کی شیطانی دراندازیوں سے بالکل محفوظ رکھے اس لئے کہ روح اور دل کی زندگی اور دنیا و آخرت کی تمام صلاح و فلاح کا انحصار اسی پر ہے۔ یہاں ان اشارات پر اکتفا فرمایئے۔ اس مسئلہ پر مفصل بحث انشاء اللہ آخری گروپ کی سورتوں میں آئے گی۔ خلفۃ کا مفہوم وہی ہے جو قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں اختلاف الیل و انھار کے الفاظ سے تعبیہ وا ہے یعنی رات اور دن کی ایک دوسرے کے پیچھے گردش، یہ گردش جن حقائق کی یاد دہانی کرتی ہے ان کی وضاحت دوسرے مقامات میں ہوچکی ہے۔
Top