Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
اور (خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
تتمہ دلائل توحید قال اللہ تعالیٰ ۔ تبارک الذی جعل فی السماء بروجا وجعل فیہا .... الیٰ .... اراد شکورا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں دلائل قدرت کا بیان تھا اب پھر بعض عجائب قدرت کو ذکر کرتے ہیں۔ بہت ہی بڑی برکت والی ہے وہ ذات پاک جس نے اپنی قدرت سے آسمان میں برج بنائے اور رکھا آسمان میں ایک چراغ یعنی آفتاب جو تمام دنیا کے لیے چراغ ہے اگر یہ نہ ہوتا تو جہان میں اندھیرا ہوجاتا اور بنایا اس میں ایک چاند روشن یا روشن کرنے والا جو روشنی میں آفتاب سے کم ہے، دونوں کا یہ تفاوت بھی اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایک کو زیادہ روشن بنایا اور ایک کو کم۔ ایک دن میں نکلتا ہے اور ایک رات میں۔ ایک مجاہد اور سعید بن جبیر ابو صالح اور حسن بصری اور قتادہ رحمہم اللہ سے مروی ہے کہ بروج سے بڑے بڑے ستارے مراد ہیں۔ برج کے اصل معنی ظہور کے ہیں چونکہ بڑے بڑے ستارے ظاہر ہیں اس لیے ان کو برج فرمایا اور بعض کہتے ہیں کہ بروج سے آسمانی قلعے مراد ہیں جہاں فرشتے پہرہ دیتے ہیں جیسا کہ حضرت علی ؓ اور ابن عباس ؓ اور محمد بن کعب ؓ اور ابراہیم نخعی (رح) اور سلیمان بن مہران (رح) اعمش سے منقول ہے کہ یہ پہرہ دینے والے فرشتوں کے ٹھکانے ہیں۔ دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 322 ج 3۔ اور بعض کہتے ہیں کہ بروج سے آسمان کی وہ بارہ منزلیں مراد ہیں جو اہل ہیئت بیان کرتے ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ 1۔ حمل، 2۔ ثور۔ 3۔ جوزاء۔ 4۔ سرطان۔ 5۔ اسد۔ جس کو لیث بھی کہتے ہیں۔ 6۔ سنبلہ۔ 7۔ میزان۔ 8۔ عقرب۔ 9۔ قوس۔ 10۔ جدی۔ 11۔ دلو۔ 12۔ حوت۔ آسمان میں ستاروں کے اجتماع سے مختلف صورتیں پیدا ہوگئیں۔ کہیں شیر کی اور کہیں ترازو کی اور کہیں بیل کی اور کہیں بچھو کی کہیں مچھلی کی۔ اور آفتاب جب ایک برج سے دوسرے برج میں جاتا ہے تو موسم بدل جاتا ہے یہ بھی خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے اس لئے وہ ان ناموں سے موسوم ہوئے، حکماء نے آسمان کو خیالی طور پر اس طرح تقسیم کیا ہے کہ جس طرح خربوزہ کی قاشیں ہوتی ہیں اور اس نام کے ساتھ اس کو نامزد کیا کہ جو صورت اس میں نمودار ہوئی۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے لیکر آسمان تک اپنی مخلوق کے لیے عالیشان مکان بنایا جس کو آفتاب اور ماہتاب اور کواکب اور نجوم سے روشن اور مزین کیا اور سامان معیشت مہیا کیا۔ یہ سب اسی رحمان کی رحمت کا کرشمہ اور جلوہ ہے جس کے لیے سجدہ کرنے سے یہ نفرت کرتے ہیں کیا اس کی قدرت نہیں کہ اس نے چاند اور سورج کو پیدا کیا اور ہر ایک کی نورانیت اور حرارت میں فرق رکھا اور اس اختلاف سے دنیا کے فوائد کو مربوط کردیا۔ اب اس کے بعد اپنی قدرت اور رحمت کا ایک اور کرشمہ ذکر کرتے ہیں کہ اس نے دن رات بنائے چناچہ فرماتے ہیں اور وہ وہی ہے جس نے دن اور رات کو ایک دوسرے کا خلیفہ اور جانشین بنایا کہ ایک کو دوسرے کے پیچھے لگا دیا۔ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آرہی ہے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ایک دوسرے کا قائم مقام ہوسکتا ہے کہ آدمی رات کا کام دن میں اور دن کا کام رات میں کرسکتا ہے لہٰذا اگر کسی سے رات کا ورد فوت ہوگیا ہو تو دن میں اس کی تلافی کرے جیسا کہ فاروق اعظم ؓ سے منقول ہے، بہرحال یہ پے درپے آمدورفت اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا تذکرہ اور نصیحت ہے اس شخص کے لیے کہ جو نصیحت پکڑنا چاہئے۔ اگر ذرا گور کرے تو سمجھ لے کہ رات دن کا آگے پیچھے آنا رحمن کی نعمتوں میں سے ائیک نعمت ہے اور اس کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے جس کا شکر واجب ہے۔ ان آیات میں تو رحمن سے نفرت کرنے والوں کا ذکر تھا اب آئندہ آیات میں رحمن کے مخلص بندوں کے اوصاف کا ذکر ہے۔
Top