Bayan-ul-Quran - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں رکھ دیا ایک چراغ اور ایک روشن چاند
اب اس سورة کا آخری رکوع شروع ہو رہا ہے جو ہمارے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا ایک اہم درس درس نمبر 11 بھی ہے۔ منتخب نصاب کے حصہ اول میں چار جامع اسباق ہیں۔ ان میں سے دوسرا درس آیت البر سورۃ البقرۃ کی آیت 177 پر مشتمل ہے ‘ جس کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں۔ حصہ دوم میں ”مباحث ایمان“ کے عنوان کے تحت پانچ دروس ہیں جن میں سے تین مقامات سورۃ الفاتحہ ‘ سورة آل عمران کے آخری رکوع کی آیات اور سورة النور کی آیات نور یعنی پانچواں رکوع کا مطالعہ ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ منتخب نصاب کا تیسرا حصہ ”مباحث عمل صالح“ پر مشتمل ہے اور اس حصے کا پہلا درس سورة المؤمنون کی ابتدائی آیات کے حوالے سے ہے ‘ جن کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں۔ ان آیات میں ایک بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر کے لیے بنیادی اساسات کے بارے میں راہنمائی کی گئی ہے ‘ جبکہ سورة الفرقان کے آخری رکوع کی جن آیات کا مطالعہ اب ہم کرنے چلے ہیں منتخب نصاب کے تیسرے حصے کا دوسرا درس ان آیات کے حوالے سے ہے ان میں بندۂ مؤمن کی تعمیر شدہ mature شخصیت و سیرت کے خصائص اور خدوخال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ لیکن اس موضوع کو شروع کرنے سے پہلے رکوع کی ابتدائی دو آیات میں ایمان کے بارے میں قرآن حکیم کے فطری استدلال کا خلاصہ بیان ہوا ہے : آیت 61 تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِیْرًا ” یہاں سورج کے لیے ”سراج“ یعنی چراغ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاند کو روشن بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک یہ حقیقت انسان کے علم میں آچکی ہے کہ سورج کے اندر جلنے یا تحریق combustion کا عمل جاری ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ روشنی کے ساتھ ساتھ حرارت کا منبع بھی ہے ‘ جبکہ چاند محض سورج کی روشنی کے انعطاف reflection کی وجہ سے روشن نظر آتا ہے اور اس میں کسی قسم کا عمل تحریق نہیں پایا جاتا۔ اس کی سطح ہماری زمین کی سطح سے ملتی جلتی ہے۔ اب تو انسان خود چاند کی سطح کا عملی طور پر مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔
Top