Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے خدا ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
مسند عبد بن حمید بیہقی ‘ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت 2 ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک روز مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تشریف لے گئے اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے آنحضرت ﷺ نے پیڑوں کے نیچے کی کھجوریں چن کر کچھ کھائیں اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا کہ تم بھی کھاؤ انہوں نے کہا کہ حضرت مجھ کو تو بھوک نہیں آپ نے فرمایا مجھ کو تو بھوک لگی ہے میں نے چار روز سے کچھ نہیں کھایا اور اگر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ کو شاہ ایران اور شاہ روم کی سی بادشاہت عنایت فرما دیوے اے عبداللہ بن عمر میرے بعد تم ایسے لوگوں کو دیکھو گے کہ برس برس روز کا غلہ ذخیرہ کر کے رکھیں گے اللہ تعالیٰ کے رزاق ہونے پر بھروسہ ان لوگوں کو نہ ہوگا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ابہی ہم اس باغ میں ہی تھی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھ کو دنیا کا خزانہ جمع کرنے سے اور دنیا کی خواہش کی چیزوں کی رغبت سے منع فرمایا ہے اس لیے کل کے واسطے میں کوئی چیز کھانے کی نہیں رکھتا جلال الدین سیوطی نے اگرچہ اس روایت کی سند کو ضعیف بتلاتا ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی جراح بن منہال ابو العطوف کو اکثر علماء 1 ؎ نے ضعیف قرار دیا ہے (1 ؎ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں ہذا حدیث غریب وابو العطوف (جراح بن منہال) ضعیف (ع ‘ ح) لیکن ترمذی میں حضرت انس ؓ کی ناقابل اعتراض سند کی حدیث 2 ؎ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کوئی کھانے پینے کی چیز کل کے واسطے ذخیرہ کر کے نہیں رکھتے تھے اس شان نزول کے مواق ہے بعضے مفسروں نے یہ جو اعتراض کیا ہے کہ اس شان نزول کی روایت کا مضمون اور صحیح روایتوں کے مخالف ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ برس روز کا غلہ ازواج مطہرات کے گھروں میں آنحضرت ﷺ کی حیات کے وقت بھرا رہتا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح بیماری کی حالت میں علاج کرنے اور نہ کرنے کی دونوں روایتیں ہیں اور علماء ان دونوں روایتوں میں ایک روایت کو دوسری روایت کے مخالف نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ایک روایت اول درجہ کے توکل کے بیان میں ہے اور دوسری روایت اس حکم کے بیان میں ہے کہ شریعت میں ضرورت کے وقت بیماری کا علاج کرنا بھی منع نہیں ہے بلکہ جائز ہے اسی طرح کی یہ دونوں روایتیں ہیں ایک روایت دوسری کے مخالف نہیں ہیں تفسیر سفیان بن عیینہ ؓ 3 ؎ میں لکھا ہے کہ سوائے آدمی اور چو ہے اور چیونٹی کے اور جاندار چیزیں کل کے کھانے پینے کی چیز کا ذخیرہ بہت کم جمع کرتی ہیں غرض کھانے پینے کی چیز گرانی کے وقت اگر کوئی شخص بھرے اور گرانی کے انتظار میں اس کو روک کر بیچنے کے لیے رکھے تو اس طرح کا ذخیرہ منع ہے اور ارزانی کے موسم میں تجارت کے لیے یا کھانے پینے کے لیے غلہ کا ذخیرہ منع نہیں ہے یہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جو رازق ذخیرہ نہ رکھنے والوں کو ہر روز رزق پہنچاتا ہے ہجرت کے سبب سے اگر تمہارا کچھ ذخیرہ وطن میں رہ جائے گا تو وہی رازق اس حالت میں بھی تم رزق پہنچائے گا کیوں کہ وہ ہر شخص کی ضرورت جانتا ہے اور ہر شخص کی التجا کو سنتا ہے صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا مال کے پیٹ میں جب بچہ کا پتلہ تیار ہوجاتا ہے تو اس میں روح پھونکنے سے پہلے اس کا رزق لکھ لیا جاتا ہے اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ اس سے رزق کے باب میں جو انظام الٰہی ہے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 149 ج 5۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی کتاب الزھذ ‘ باب ما جآء فی معیشتہ النبی ﷺ واہلہ) (3 ؎ فتح البیان ص 514 ح 3 (طبع بھوپال ہند ) (1 ؎ مشکوٰۃ ص 20 باب الایمان بابقدر فصل اول۔ )
Top