Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 61
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ۚ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر سَاَلْتَهُمْ : تم پوچھو ان سے مَّنْ خَلَقَ : کس نے بنایا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا (کام میں لگایا) الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند لَيَقُوْلُنَّ : وہ ضرور کہیں گے اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پھر کہاں يُؤْفَكُوْنَ : وہ الٹے پھرے جاتے ہیں
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ اور سورج اور چاند کو کس نے (تمہارے) زیر فرمان کیا ؟ تو کہہ دیں گے خدا نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں ؟
61 تا 69۔ اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں اپنا معبود ہونا بیان فرماتا ہے کہ اس کے سوائے کوئی لائق بندگی کے نہیں ہے کس واسطے کہ مشرک لوگ اگرچہ خدا کے سوا اوروں کو بھی پوجتے ہیں لیکن آسمان و زمین چاند سورج رات دن کا پیدا کرنے والا خدا ہی کو جانتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ بندوں کا روزی دینے والا اور مارنے والا بھی وہی اللہ ہے اور وہی کسی کو امیر اور کسی کو فقیر جیسا مناسب دیکھتا ہے اور جس کا جس کا مستحق جانتا ہے ویسا ہی کرتا ہے وہی سب کا خالق ہے یہ سب کچھ کہہ کر پھر بتوں کو اپنا معبود جانتے ہیں کی زندگی پر رکھا تھا اس لیے آگے کی آیت میں اللہ تعالیٰ دنیا کی حقارت اور آخرت کی تعریف بیان فرماتا ہے کہ دنیا کی زندگی نا پائیدار ہے جس کو بقا نہیں اور آخرت کا جینا ہمیشہ کا جینا ہے اگر یہ مشرک اس بات کو سمجھتے تو باقی کو فانی پر اختیار نہ کرتے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرک لوگ بےبسی کی حالت میں صرف خدا ہی کو پکارتے ہیں ہر وقت اس کو نہیں پکارتے یہ ان کی نادانی ہے سورة نبی اسرائیل میں فرمایا واذا مسکم فی البحر ضل من تدعون الا ایاہ فلما نجا کم الی البر اعرضتم جس مطلب یہ ہے کہ جب تم کو دریا میں تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے بتوں کو بھول جاتے ہو اور ڈوبنے سے بچانے کی التجا خالص اللہ سے کرتے ہو پھر جب نجات دی تم کو خدا نے دریا سے طرف جنگل کی تو بچ گئے یہاں فرمایا کہ جب نجات دی تو لگے شرک کرنے دنیا کی زندگی کو لہو لعب اس واسطے فرمایا کہ جس طرح بچے کسی چیز سے دل بہلاتے ہیں اور کھیلتے ہیں اور پھر تتر بتر ہوجاتے ہیں ایسے ہی دنیا فانی ہے اور آخرت میں حیات دائمی ہے جس میں موت نہیں اور نہ کسی طرح کا غم اور بیماری ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ سمجھ رکھتے یا کچھ علم ان کو ہوتا تو دار فانیہ کو آخرت باقیہ پر پسند نہ کرتے ان کو ایمان سے روکنے والی دنیا کی زندگی ہے جب ان کو زندگی کی امید نہیں رہتی اور ڈوب جانے کا خوف ہوتا ہے تو فطرت کی طرف پھرتے ہیں سچی نیت سے اکیلے اللہ ہی کو پکارتے ہیں بتوں کو چھوڑ دیتے ہیں جانتے ہیں کہ اس شدت کے وقت اللہ کے سوا کوئی مصیبت کو دور کرنے والا نہیں جب وہ پروردگار ان کو ڈوبنے سے بچا دیتا ہے اور خشک زمین میں ان کو لے آتا ہے اور وہ بےخوف ہوجاتے ہیں تو اس وقت بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرانے لگتے ہیں اور غیر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں فسوف یعلمون کا مطلب یہ ہے قریب معلوم کریں گے اپنے اس کام کے نتیجہ کو اب آگے اللہ تعالیٰ قریش پر احسان جتلاتا ہے کہ ان کو حرم میں اس طرح آباد کیا کہ جو اس میں آیا اس کو امن ملا مکہ والے امن تھے اور سارے ملک میں فساد تھا ایک کو ایک لوٹتا قتل کرتا اس نعمت کا شکریہ ان لوگوں نے یہ کیا کہ خدا کے ساتھ اوروں کو شریک ٹھہرایا اور بتوں کی بندگی کی اللہ کے احسان کے بدلے میں ناشکری کی ان کو چاہئے تھا کہ خالص اللہ کی بندگی کرتے اور کسی کو اس کا شریک نہ کرتے اور اس کے رسول کی تعظیم کرتے انہوں نے بجائے تعظیم کے اللہ کے رسول کو اپنے شہر سے نکال دیا خدا تعالیٰ نے بھی اپنی نعمتیں ان سے لے لیں اور بدر میں ان کو قتل کیا پھر غلبہ اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو ہوگیا مکہ فتح ہوا اور ان کو اللہ نے ذلیل و خوار کیا پھر فرمایا ایسے شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر یہ جھوٹ باندھے کہ اللہ نے مجھ پر وحی کی ہے اور اس پر کچھ وحق نہیں ہوئی یا جھٹلاوے دین حق کو جب اس کے پاس آوے کیا دوزخ میں منکروں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے یہ بطور دھمکی اور ڈرانے کے فرمایا جب اللہ تعالیٰ مشرکوں کا احوال فرما چکا تو اب ان کے مقابل میں اپنے نیک بندوں کا حال بیان کرتا ہے کہ جن لوگوں نے ہماری رضامندی حاصل کرنے کے لیے محنت کی ان کو ہم اپنی ہی سوجھا دیں گے مطلب یہ ہے کہ ان کو نیک راستوں کی طرف زیادہ ہدایت کریں گے اور توفیق اچھی عطا کریں گے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر میں فرمایا کہ جنہوں نے ہماری طاعت میں کوشش کی ہم انکو اپنے ثواب کی راہیں بتلاویں گے وان اللہ لمع المحسنین اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے دنیا میں مدد سے اور آخرت میں مغفرت سے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہ ہوگا۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ شیطان نے پہلے تو لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ وہ اپنے نیک بڑے بوڑھوں کی مورتیں فقط یادگاری کے لیے بناویں اور پھر کئی پشتوں کے بعد ان مورتوں کی پوجا کار واج لوگوں میں اس اعتقاد سے پھیلا دیا کہ جو کوئی ان نیک لوگوں کو مورتوں کو پوجے گا یہ نیک لوگ اللہ کے روبرو اس کی سفارش کریں گے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر لوگوں کے دل میں شیطان یہ وسوسہ نہ ڈالتا کہ یہ لوگ اپنے ہات سے پتھر کی مورتیں بنادیں اور ان مورتوں کو یا اپنے نیک بڑے بوڑھوں کو تمام جہان کا خالق اور رازق سمجھیں تو وہ ملعون شرک کے پھیلانے میں کبھی کامیاب نہ ہوتا کیونکہ یہ وسوسہ ایسا کھلم کھلا غلط تھا کہ اس کو ہرگز کوئی نہ مانتا اس لیے اس ملعون نے شرک کے پھیلانے کا وسوسہ اس ہیر پھیر سے لوگوں کے دل میں ڈالا جس کا ذکر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث میں ہے اب اس ہیر پھیر کے وسوسہ کے بعد بھی یہ اعتبقاد مشرکوں کے دلوں میں فرما کر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو یوں قائل کیا ہے کہ جو تمام جہاں کا خالق و رازق ہے تمام جہان کا معبود بھی وہی وحدہ لاشریک ہے اب رہا مشرکوں کا یہ اعتقاد کہ جو کوئی ان نیک لوگوں کو مورتوں کو پوجے گا تو یہ نیک لوگ اللہ کے روبرو اس کی سفارش کریں گے اس کا جواب سورة یونس میں گزر چکا ہے حاصل یہ ہے کہ کہ ان نیک لوگوں نے اپنے جیتے جی کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ ان کے مرنے کے بعد لوگ ان کی مورتوں کی پوجا کیا کریں اور مرنے کے بعد دنیا کے احوال کی ان نیک لوگوں کو کچھ خیر نہیں اس لیے قیامت کے دن وہ نیک لوگ ان مشرکوں سے اپنی بڑی بیزاری ظاہر کریں گے اور اللہ تعالیٰ کو اپنی بیخبر ی اور برائت کا گواہ قرار دیویں گے۔ سورة الا نعام میں گزر چکا ہے کہ مسیلمہ کذاب کہتا تھا کہ اس پر بھی آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور مشرکین مکہ قرآن کے وحی ہونے کی منکر تھے ان ہی دونوں باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔
Top