Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 22
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١٘ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ
وَلَمَّا : اور جب رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومنوں نے دیکھا الْاَحْزَابَ ۙ : لشکروں کو قَالُوْا : وہ کہنے لگے ھٰذَا : یہ ہے مَا وَعَدَنَا : جو ہم نے کو وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ ۡ : اور اس کا رسول وَمَا : اور نہ زَادَهُمْ : ان کا زیادہ کیا اِلَّآ : مگر اِيْمَانًا : ایمان وَّتَسْلِيْمًا : اور فرمانبرداری
اور جب مومنوں نے (کافروں کے) لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا خدا اور اس کے پیغمبر نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور خدا اور اس کے پیغمبر نے سچ کہا تھا اور اس سے ان کا ایمان اور اطاعت اور زیادہ ہوگئی
22‘ 23۔ مسلمانوں کا دل بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مختصر طور پر حضرت انس بن نضر کے قصہ کا ذکر فرمایا ہے جنگ احد کے ذکر میں اس قصہ کا تذکرہ گزر چکا ہے صحیح بخاری کی انس بن مالک ؓ سے جو اس قصہ کی روایت سورة آل عمران میں گزر چکی ہے 1 ؎ اس کا حاصل یہ ہے (1 ؎ تیز دیکھئے تفسیر ابن کثیر زیر تفسیر ہذا) کہ انس بن مالک ؓ کے چچا انس ؓ بن نضر کسی ضرورت کے سبب سے بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوسکتے تھے اس واسطے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر بدر کی لڑائی کے بعد پھر آنحضرت ﷺ کو کسی لڑائی کا موقع پیش آوے گا تو یہ بڑی جانبازی سے خوب دل کھول کر لڑیں گے جنگ بدر کے بعد جب احد کی لڑائی کا موقع پیش آیا تو انس بن نضر ؓ مسلمانوں کے لشکر میں موجود تھے اور مسلمانوں کی شکست کے وقت اللہ تعالیٰ سے انہوں نے سب مسلمانوں کی طرف سے عذر خواہی کی اور اپنا عہد پورا کرنے کو تلوارے کر دشمن کے لشکر کی طرف بڑھے اور سعد بن معاذ ؓ ان کو راستہ میں ملے تو انہوں نے سعد ؓ سے کہا کہ احد پہاڑ کی جانب سے مجھ کو جنت کی خوشبو آتی ہے اور نہایت جو انمردی کر کے دشمنوں سے لڑے اور کچھ اوپر اسی 80 زخم کھا کر شہید ہوئے اس قصہ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے یاد دلایا ہے کہ سب مسلمانوں نے جس طرح اللہ کے رسول سے دین کی لڑائی میں جان بازی کرنے کا عہد کیا ہے انس بن نضر ؓ کی طرح ان کو اس اپنے عہد پر قائم رہنا چاہئے اور منافقوں کے بہکانے میں ہرگز نہیں آنا چاہئے مجاہد کے قول کے موافق حب کے معنے عہد کے ہیں ‘ جو لوگ انس بن نضر کی طرح احد کی لڑائی میں شہید تو نہیں ہوئے مگر اس خندق کی لڑائی میں ثابت قدم رہے ان کی یہ تفریف فرمائی کہ وہ بھی اپنی جانبازی کے عہد پر قائم اور عد کے پورا کرنے کے منتظر تھے اس لیے اس لڑائی میں انہوں نے منافقوں کی طرح اپنے عہد کو نہیں بدلا آخر آیت میں عہد کو سچا کرنے والوں کا اور بدعہدی کرنے والوں کا نتیجہ ذکر فرمایا کہ عہد کو سچا کرنے والوں کے لیے عقبیٰ میں اجر ہے اور بدعہدی کرنے والوں کے لیے عذاب ‘ بدعہدی کرنے والوں میں بعضے لوگ اللہ کے علم میں توبہ کرنے والے بھی تھے اس لیے فرمایا ان میں سے جن کو اللہ چاہے گا آیندہ بدعہدی سے توبہ کرنے کی ان کو تو فقر دے گا اور یہ بھی فرمایا کہ توبہ سے پہلے کے گناہوں کے معاف کردینے میں اللہ بڑا مہربان ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ غفور رحیمی کی صفت اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری ہے کہ اگر دنیا کے موجودہ لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ بجائے ان کے اور ایسے لوگوں کو پیدا کرتا کہ وہ گناہ کر کے توبہ استغفار کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخشش دیتا۔ یہ حدیث ان اللہ کان غفورا رحم یا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر یہ منافق آیندہ اپنی عادتوں سے توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے پچھلے گناہوں کو ضرور معاف کر دے گا۔
Top