Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 67
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ١ۖۗ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَمَا قَدَرُوا : اور انہوں نے قدر شناسی نہ کی اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق قَدْرِهٖ ڰ : اس کی قدر شناسی وَالْاَرْضُ : اور زمین جَمِيْعًا : تمام قَبْضَتُهٗ : اس کی مٹھی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَالسَّمٰوٰتُ : اور تمام آسمان مَطْوِيّٰتٌۢ : لپٹے ہوئے بِيَمِيْنِهٖ ۭ : اس کے دائیں ہاتھ میں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اور انہوں نے خدا کی قدر شناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اسکے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے اور وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور عالیشان ہے
67۔ 70۔ ترمذی 1 ؎ میں حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز ایک یہودی آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس بات میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمان و زمین اور پہاڑوں کے سوا تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر اور زمین پر ایک انگلی پر اور آسمان ایک انگلی پر اور پہاڑ ایک انگلی پر رکھے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہی آیت نازل فرمائی۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح بتلایا ہے لیکن صحیح بخاری 2 ؎ اور مسلم نسائی ابن ماجہ مسند امام (2 ؎ صحیح بخاری باب ما قدروا اللہ حق قدرہ ص 711 ج 2۔ ) احمد اور خود ترمذی کی ایک روایت میں اس قصہ کے بعد آیت کے نازل ہونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ ذکر ہے کہ اس قصہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہ آیت پڑھی مگر جب کہ ترمذی کی شان نزول کی روایت بھی صحیح ہوچکی ہے تو دونوں طرح کی روایتوں میں یوں مطابقت ہوسکتی ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ کی عادت تھی کہ جو آیت اترا کرتی تھی اسی وقت آپ اس کو پڑھا کرتے تھے اسی طرح نازل ہوتے ہی اس آیت کو بھی آپ نے پڑھا ہوگا ‘ جن صحابہ نے فقط آپ کی تلاوت کی حالت کو دیکھا انہوں نے وہی حالت روایت کی اور جن صحابہ نے آیت کے نازل ہونے کا موقع بھی دیکھا ‘ انہوں نے آیت کے نازل ہونے کا ذکر بھی اپنی روایت میں کیا ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت سے آخر رکوع تک اللہ تعالیٰ نے حشر کے متعلق چند باتوں کا ذکر فرمایا ہے اب مقصد اس سے محض قریش کو شرک سے ڈرانا اور ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کا بٹھانا ہے اس واسطے ترتیب سے اور حشر کی باتوں کا ذکر ان آیتوں میں نہیں فرمایا صحیح حدیثوں میں اس مختص ذکر کی تفصیل اور ترتیب یوں آئی ہے کہ پہلا صور پھونکا جا کر جب تمام دنیا ویران ہوجائے گی اس ویرانی کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کو اپنی انگلیوں پر لے کر یہ فرمائے گا کہ آج وہ بادشاہت کے دعوے کرنے والے کہاں گئے اس وقت کوئی جواب دینے والا موجود نہ ہوگا اس لئے خود پھر فرمائے گا کہ سب ملک اللہ کا ہے پھر دوسرا صور پھونکا جا کر لوگ قبروں سے اٹھیں گے اور نئی زمین جو پیدا ہوگی اس پر میدان محشر میں سب جمع ہوں گے گرمی اور پسینہ سے گھبرا کر سب انبیا کے پاس جلد حساب و کتاب شروع ہونے کی شفاعت کی درخواست کریں گے اور سوا آنحضرت ﷺ کے کسی نبی کی جرأت اس شفاعت کی نہ ہوگی آخر کار آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے اللہ تعالیٰ اس نئی زمین پر لوگوں کے حساب و کتاب کے لئے تجلی فرمائے گا اس کا ذکر آیتوں میں ہے کہ اللہ کے نور سے زمین روشن ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کا نور زمین کو مٹھی میں لینے کا اور زمین پر تجلی فرمانے کا اور اللہ تعلایٰ کے ہاتھ کا ذکر ان آیتوں اور حدیثوں میں جو ہے اس باب میں صحیح مذہب وہی ہے جو صحابہ اور تابعین نے اختیار کیا ہے کہ جس قدر قرآن اور حدیث میں آیا ہے اس پر ایمان لانا چاہئے اور ان باتوں کا تفصیلی علم خدا کو سونپنا چاہئے اور طرح طرح کی تاویلیں کرکے صحابہ اور تابعین سے مخالفت نہ پیدا کرنی چاہئے۔ شاہ صاحت نے اپنے فائدہ میں یہ جو لکھا ہے کہ اللہ کا دایاں ہاتھ کہئے اور بایاں نہ کہئے یہ صحیح 1 ؎ مسلم کی عبد اللہ بن عمر (1 ؎ یہ حدیث مسلم میں نہیں مل سکی البتہ ترمذی شریف میں موجود ہے دیکھیں ترمذی ص 195 ج 2۔ ) کی حدیث کا مضمون ہے کیونکہ اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مخلوقات کے بائیں ہاتھ میں ذرا کمزوری ہوتی ہے اللہ کی ذات اس نقصان کی صفت سے پاک ہے مخلوقات کو مٹھی میں لینے کی مثال سے مشرکین مکہ کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ جب تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آگے ایسی حقیر ہے کہ اس کی مٹھی میں آسکتی ہے تو مخلوقات میں کسی کو اس کا شریک کیونکر ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ صحیح بخاری 2 ؎ و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر سے جو (2 ؎ بخاری شریف باب ونفخ فی الصور الایۃ ص 711 ج 2۔ ) روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ صور دو دفعہ پھونکا جائے گا پہلے صور سے تمام دنیا اجڑ جائے گی اور دوسرے صور سے سب دنیا کے لوگ زندہ ہو قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے یہ پہلا صور جب پھونکا جائے گا تو اس وقت دنیا میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔ کیونکہ صحیح 3 ؎ مسلم میں عبد اللہ بن عمر کی جو روایت ہے اس (3 ؎ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ص 403 ج 2۔ ) میں یہ بھی ہے کہ پہلے صور سے پہلے شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا آئے گی جس کے اثر سے ایسے سب لوگ مار جائیں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ جو علما یہ کہتے ہیں کہ صورتین دفعہ پھونکا جائے گا وہ اس ٹھنڈی ہوا کو پہلا صور شمار کرتے ہیں۔ دونوں صور کے مابین میں چالیس برس کی مدت جو مشہور ہے اس باب میں کوئی حدیث تو نہیں ہے مگر اکثر صحابہ کا قول یہی ہے۔ اس تفسیر میں یہ بات گزر چکی ہے کہ ایسی باتوں میں صحابہ کا قول حدیث نبوی کے برابر ہوتا ہے کیونکہ ایسی غیب کی باتیں صحابہ عقل نہیں کہہ سکتے۔ الامن شاء اللہ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول یہی ہے کہ پہلے صور کے بعد جبرئیل ( علیہ السلام) میکائیل ( علیہ السلام) اسرافیل ( علیہ السلام) اور ملک الموت یہ چار فرشتے باقی رہیں گے پھر اللہ کے حکم سے یہ بھی مرجائیں گے۔ اگرچہ بعض روایتوں میں الامن شاء اللہ کی تفسیر شہیدوں کو ٹھہرایا گیا ہے لیکن وہ روایتیں ضعف سے خالی نہیں علاوہ ضعف کے اس تفسیر پر حافظ ابو جعفر ابن جریر نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ جب آیت کا یہ مطلب ہے کہ جن مخلوقات نے پہلے صور تک موت کا مزہ نہیں چکھا ہے پہلے صور سے وہ ساری مخلوقات مرجائے گی ہاں جن کو اللہ تعالیٰ زندہ رکھنا چاہے گا وہ نہ مریں گے۔ شہید لوگ شہادت کے وقت موت کا مزہ چکھ چکے ہیں اس واسطے وہ آیت کے مطلب میں داخل نہیں ہوسکتے۔ مسند بزار 4 ؎ اور طبرانی کے حوالہ (4 ؎ الترغیب و الترہیب باب اترہیب من الریاء ص 65 ج 1۔ ) سے انس ؓ بن مالک کی صحیح حدیث ایک جگہ سے گزر چکی ہے کہ قیامت کے دن سربمہر لوگوں کے نامہ اعمال حساب و کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے رو برو پیش ہوں گے یہ حدیث ووضع الکتاب کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کتاب سے مقصود ہر شخص کا نامہ اعمال ہے صحیح بخاری 1 ؎ ترمذی وغیرہ میں جو چند صحابہ کی روایتیں ہیں ان (1 ؎ صحیح بخاری باب قولہ وکذلک جعلنکم امۃ وسطا الایۃ ص 644 ج 2۔ ) کا حاصل یہ ہے کہ جب نافرمان امتوں کے لوگ اپنے رسولوں کو جھٹلائیں گے اور یہ کہیں گے کہ یا اللہ ہم کو کسی رسول نے تیرا حکم نہیں پہنچایا تو اس پر اللہ تعالیٰ ان رسولوں سے فرمائے گا کہ تمہارے پاس اللہ کا پیغام پہنچا دینے کی کوئی گواہی ہے وہ رسول امت محمدیہ ﷺ کو اپنا گواہ قرار دیں گے۔ امت محمدیہ ؓ کے لوگ کہیں گے یا اللہ تو نے نبی آخر الزمان ﷺ پر جو قرآن اتارا تھا اس میں پہلے نبیوں اور پہلی امتوں کا سب ذکر ہے جس سے ہم گواہی دیتے ہیں کہ تیرے رسول سچے ہیں۔ یہ روایتیں وجی بالنبیین و الشھداء کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہ سے مقصود امت محمدیہ ﷺ ہے۔ صحیح 2 ؎ مسلم وغیرہ کے حوالہ سے ابوذر کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم (2 ؎ صحیح مسلم تحریم الظلم ص 319 ج 2۔ ) اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا ہے۔ یہ حدیث وقضی بینھم بالحق وھم لایظمون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا اس لئے اس کا فیصلہ انصاف کے موافق ہوگا صحیح بخاری 3 ؎ و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ ؓ بن عباس کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی (3 ؎ صحیح مسلم باب بیان تجاوز اللہ تعالیٰ عن حدیث النفس الخ ص 78 ج 1 و بخاری شریف کتاب الرقاق باب من ھم بحسنۃ اوسیئۃ ص 960 ج 2۔ ) ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو نیکیوں کے برابر اور بعض نیکیوں کا بدلہ اس سے بھی زیادہ دیا جائے گا اور بدیوں کی سزا میں کچھ زیادتی نہ کی جائے گی ووفیت کل نفس ماعملت کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ صحیح 4 ؎ مسلم کے حوالہ سے (4 ؎ صحیح مسلم حجاج ادم و موسیٰ ص 345 ج 2۔ ) عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث میں جو کچھ ہونے والا تھا دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ یہ حدیث وھو اعلم بھا یفعلون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نامہ اعمال کا لکھا جانا گواہی شاہدی یہ سب لوگوں کے قائل کرنے کے لئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔
Top