Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار یتیم اور محتاج آجائیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو اور شیریں کلامی سے پیش آیا کرو۔
اس آیت کے منسوخ ہونے اور نہ ہونے میں صحابہ اور تابعین کا بڑا اختلاف ہے یہاں تک کہ امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے بھی اس باب میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یوصیکم اللہ سے منسوخ ہے اور دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ منسوخ نہیں ہے۔ اور رفع اس اختلاف کا یہی ہے کہ منسوخ نہ ہونے کی روایت بہ نسبت منسوخ ہونے کی روایت کے زیادہ قوی ہے چناچہ اسی وجہ سے امام بخاری نے صحیح بخاری 2 میں بوجہ ثقاہت راویوں کے منسوخ نہ ہونے کی روایت کو لیا ہے دوسری روایت کو نہیں لیا۔ اور اس صورت میں معنی اس آیت کے آیت یوصیکم اللہ کے ساتھ ملا کر یہ ہوں گے کہ آیت یوصیکم اللہ سے جن قرابت داروں کے حصہ قرار پائے ہیں ان قرابت دروں کے ماسوا اور ایسے قرابت دار ہیں جن کا کچھ حصہ مقرر نہیں ہے ان کا اس آیت میں ذکر ہے کہ تقسیم مال کے وقت ان کو کھانا کھلا یا جائے۔ یا کچھ دے دیا جائے اور زیادہ نہ دینے کا عذر نرم لفظوں میں کردیا جائے اس وجہ سے دونوں آیتوں کا حکم اپنی اپنی جگہ قائم ہے۔ ایک حکم دوسرے حکم سے منسوخ نہیں ہے چناچہ بعض روایتوں میں خود حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے ان معنوں کی صراحت فرمائی ہے 1۔
Top