Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 30
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ شخص جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ مِّثْلَ : تم پر۔ مانند يَوْمِ الْاَحْزَابِ : (سابقہ) گروہوں کا دن
تو جو مومن تھا وہ کہنے لگا کہ اے میری قوم مجھے تمہاری نسبت خوف ہے کہ (مبادا) تم پر اور امتوں کی طرح کے دن کا عذاب آجائے
30۔ 35۔ اس ایماندار شخص کی نصیحت کے بیچ میں وہ بات فرعون نے کہہ دی تھی جس کا ذکر اوپر کی آیت میں تھا اب پھر اس ایماندار شخص کی نصیحت کا سلسلہ شروع ہوا اس ایماندار شخص نے اپنی اس نصیحت میں یہ جو کہا کہ مصر کے لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد یوں کہتے تھے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پیچھے اللہ تعالیٰ اور کوئی پیغمبر نہ بھیجے گا اس سے یہ مطلب اس ایماندار شخص کا نہیں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پیغمبری کے مصر کے لوگ قائل تھے کیونکہ انہی آیتوں میں ہے فماز لتم فی شک مما جاء کم بہ جس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کے دھوکے طرح تم یوسف (علیہ السلام) کے معجزوں سے بھی دھوکے میں رہے اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہیں کہ مصر کے لوگ اب جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد اپنی عقل سے یوں کہنے لگے کہ اب کوئی شخص ! اللہ تعالیٰ ایسا نہ بھیجے گا جو حضرت یوسف کی طرح اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہے مصر کے لوگوں نے محض اپنی عقل سے جو یہ ایک بات غیب کی منہ سے نکالی کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف کے بعد کوئی پیغمبر نہ بھیجے گا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو گمراہ اور حد سے گزر جانے والا فرمایا غیب کی اور دین کی باتوں میں محض عقل سے کوئی بات منہ سے نکالنی بڑی اندیشہ کی بات ہے۔ صحیح 1 ؎ مسلم میں جندب بن عبد اللہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک شخص نے ایک شخص کو قسم کھا کر یہ کہہ دیا تھا کہ خدا تجھ کو نہ بخشے گا خدا تعالیٰ نے محض اتنی بات پر کہ اس قسم کھانے والے شخص نے ایک غیب کی بات اللہ تعالیٰ کے حق میں کیوں منہ سے نکالی اس قسم کھانے والا شخص کے نیک عمل اکارت کردیئے اور جس شخص کے باب میں اس شخص نے قسم کھائی تھی اس کی مغفرت فرما دی یہ تو غیب کی بات بغیر جانے بوجھے منہ سے نکالنے کا انجام ہوا اسی طرح دین میں کسی چیز کو بغیر شرعی دلیل کے اپنی طرف سے حلال یا حرام ٹھہرانے کا انجام بھی برا ہے اسی واسطے آنحضرت ﷺ نے صحیح بخاری 2 ؎ کی حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس کی روایت میں فرمایا کہ جو کوئی شخص اسلام کے پھیل جانے کے بعد اسلام سے پہلے کی جاہلیت کے زمانے کی باتوں کو رواج دے گا اس شخص سے بڑھ کر خدا کے نزدیک کوئی برا نہیں پچھلی قوموں میں سے ہر ایک قوم کو ایک دن عذاب کے آنے کا جو پیش آیا ہے اسی کو یوم الاحزاب کہا گیا ہے مطلب یہ ہے مجھ کو اندیشہ ہے کہ ان فرقوں کے عذاب کے دنوں میں کا کوئی دن کہیں قبطی قوم کے سامنے نہ آجائے قوم لوط کی ہلاکت کا قصہ والذین من بعلھم کی گویا تفسیر ہے کیونکہ قوم لوط کی ہلاکت ثمود کے بعد ہے صحیح مسلم 1 ؎ کے حوالہ سے ابوذر کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔ یہ حدیث وما اللہ یزید ظلما للعباد کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس لئے وہ اپنے بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔ یوم التناد کی تفسیر اکثر سلف نے قیامت کے دن کی صحیح قرار دی ہے کیونکہ اس دن کی ہانک پکار سب دنوں سے زیادہ ہے حساب و کتاب کے بعد حساب و کتاب کے مقام کی طرف سے پیٹھ پھیر کر پل صراط پر گزرنے کے لئے سب لوگ جو دوڑیں گے اسی مطلب کو یوم تولون مدبرین سے ادا فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق جس کو لوح محفوظ میں گمراہ لکھ دیا کوئی اس کو راہ راست پر نہیں لاسکتا اسی مطلب کو ومن یضلل الہ فمالہ من ھاد سے ادا فرمایا گیا ہے۔ سورة الانبیا میں گزر چکا ہے۔ وجعلنا ھم ائمۃ یھدون بامرنا اور سورة التغابن میں آئے گا۔ ومن یومن باللہ یھد قلبہ ان دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لئے جو احکام اللہ تعالیٰ نے انبیا کی معرفت بھیجے ہیں اللہ کے علم غیب میں جو لوگ نیک ٹھہر چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دل میں ایک توفیق پیدا کردیتا ہے جس سے وہ لوگ ان احکام کی پابندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اسی طرح جو لوگ اللہ کے علم غیب میں بد قرار پا چکے ہیں نہ وہ احکام الٰہی کی پابندی کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ ان کے دل میں وہ توفیق پیدا ہوتی ہے بلکہ ایسے لوگوں کو اللہ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا حاصل کلام یہ ہے کہ سورة الانبیا اور سورة التغابن کی دونوں آیتوں کا مطلب آیت ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد کے ساتھ ملایا جائے تو اس آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ آگے فرمایا کہ جو لوگ احکام الٰہی کی پابندی میں بغیر کسی سند کے جھگڑے نکالتے ہیں اللہ ‘ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار سب ان بےسند جھگڑا کرنے والوں سے بیزار ہیں اور کثرت گناہوں کے سبب سے ان بےسند جھگڑا کرنے والوں کے دلوں پر زنگ کی مہر لگ گئی ہے جس سے کوئی نیک بات ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتی ترمذی 2 ؎ نسائی ابن ماجہ وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہ پر گناہ کرنے سے آدمی کے دل پر زنگ چھا جاتا ہے۔ یہ حدیث کذلک یطبع اللہ علی عل قلب متکبر جبار۔ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے سرکش لوگوں کے دلوں پر زنگ چھا جاتا ہے اس لئے وہ احکام الٰہی کی پابندی میں بےسند جھگڑے نکالنے لگتے ہیں۔ (1 ؎ صحیح مسلم باب النھی عن تقنیط الانسان من رحمۃ اللہ۔ ص 329 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری کتاب الدیات باب من طلب دم امرء مسلم بغیر حق ص 1016 ج 2۔ ) (1 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 94۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة المطففین ص 191 ج 2۔ )
Top