Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 81
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
خوش ہوگئے پیچھے رہنے والے اپنے بیٹھ رہنے سے جدا ہو کر رسول اللہ سے اور گھبرائے اس سے کہ لڑیں اپنے مال سے اور جان سے اللہ کی راہ میں4 اور بولے کہ مت کوچ کرو گرمی میں5 تو کہہ دوزخ کی آگ سخت گرم ہے اگر ان کو سمجھ ہوتی6 
4 یہ ان منافقین کے متعلق ہے جو غزوہ تبوک کی شرکت سے علٰیحدہ رہے۔ یعنی منافقین کا حال یہ ہے کہ برائی اور عیب کا کام کر کے خوش ہوتے ہیں، نیکی سے گھبرا کر دور بھاگتے ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے گزرا نیکی کرنے والوں پر طعن کرتے اور آوازے کستے ہیں۔ ایسی قوم کو نبی کے استغفار سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہاں سے گنہگار اور بد اعتقاد کا فرق نکلتا ہے۔ گناہ ایسا کونسا ہے جو پیغمبر کے بخشوانے سے نہ بخشا جائے۔ (وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا) 4 ۔ النسآء :64) لیکن بد اعتقاد کو پیغمبر کا ستر مرتبہ استغفار فائدہ نہ دے۔ 5 یا تو منافقین آپس میں ایک دوسرے کو کہتے تھے اور یا بعض مومنین سے کہتے ہوں گے کہ ان کی ہمتیں سست ہوجائیں۔ 6  یعنی اگر سمجھ ہوتی تو خیال کرتے کہ یہاں کی گرمی سے بچ کر جس گرمی کی طرف جا رہے ہو وہ کہیں زیادہ سخت ہے۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ دھوپ سے بھاگ کر آگ کی پناہ لی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر درجہ زیادہ تیز ہے۔ نعوذ باللہ منہا۔
Top