Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 21
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ كَرِهُوْۤا اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ١ؕ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا١ؕ لَوْ كَانُوْا یَفْقَهُوْنَ
فَرِحَ : خوش ہوئے الْمُخَلَّفُوْنَ : پیچھے رہنے والے بِمَقْعَدِهِمْ : اپنے بیٹھ رہنے سے خِلٰفَ : خلاف (پیچھے) رَسُوْلِ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَكَرِهُوْٓا : اور انہوں نے ناپسند کیا اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَا تَنْفِرُوْا : نہ کوچ کرو فِي الْحَرِّ : گرمی میں قُلْ : آپ کہ دیں نَارُ جَهَنَّمَ : جہنم کی آگ اَشَدُّ : سب سے زیادہ حَرًّا : گرمی میں لَوْ : کاش كَانُوْا يَفْقَهُوْنَ : وہ سمجھ رکھتے
جو لوگ (غزوئہ تبوک سے) پیچھے رہ گئے وہ اللہ کے رسول کی مرضی کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے اور اس کام کو پسند نہ کیا کہ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کریں اور دوسروں کو بھی کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا، ان سے کہہ دو کہ دوزخ کی آگ ! اس سے کہیں زیادہ گرم ہوگی کاش ! یہ (اس بات کو) سمجھتے۔
منافق کی پہچان اور ان سے قطع تعلق تشریح : پچھلی آیات سے منافقین کا سلسلہ چل رہا ہے یہاں بھی انہی کا ذکر ہے اور اسلامی فوج کو یہ نکتہ سمجھایا جا رہا ہے کہ منافقین سے مدد لینا بڑی حماقت ہے کیونکہ یہ لوگ اوپر سے کچھ اندر سے کچھ ہوتے ہیں یہ بیرونی دشمن سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں اس لیے اپنی فوج کو ان سے ہوشیار رہنے کی اور آپس میں متحد رہنے کی پوری ٹریننگ دو کیونکہ یہ نہ تو مخلص ہیں اور نہ ہی جہاد کی تکلیف برداشت کرسکتے ہیں غزوئہ تبوک کا واقعہ ہوچکا ہے بلکہ یہ تو دوسروں کو بھی ترغیب دیتے رہے کہ بھئی اتنی گرمی ہے مت نکلو جہاد کے لئے۔ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ اطاعت رسول ﷺ اور محبت الٰہی میں جان و مال خرچ کرنا کس قدر فائدہ مند ہے اور اس دنیائے فانی کا عیش و آرام کس قدر بےکار اور فضول ہے۔ یہ جہاد کی فضیلت کو کیا جانیں۔ یہ لوگ تو اگر کبھی جہاد میں شامل ہونا بھی چاہیں تو ہرگز ان کو شامل مت کرو بلکہ اپنی تنظیم کو اس قدر مضبوط بنا لو کہ کسی بھی طور یہ لوگ تمہارے ساتھ شامل نہ ہونے پائیں۔ ان کو صاف صاف بتا دو کہ ہمیں تم جیسوں کی نہ مدد چاہیے نہ مال چاہیے، ہنسو کھیلو کیونکہ آخرت میں تمہارے بد اعمال کا بدلہ تمہیں اتنا دردناک دیا جائے گا کہ ساری زندگی روتے رہو گے اور پھر وہ زندگی نہ ختم ہوگی نہ عذاب سے نجات ملے گی۔ مال اور جان سے جہاد کی فضیلت یہ کیا جانیں۔ اللہ فرماتا ہے : ” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پس وہ مارتے ہیں اور مرتے (شہیدہوتے) ہیں۔ “ ( التوبہ، آیت : 111) شہادت کا درجہ اتنا بلند ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہوتی ہے کہ اسے موت کی تکلیف نہیں ہوتی حدیث ہے سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” شہید کو قتل ہونے سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چیونٹی یا مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ “ (جامع ترمذی، ابواب فضائل الجہاد) شہید کی نشانی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تم لوگ ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔ “ (البقرہ، آیت : 154) پھر ایک جگہ اور فرمایا :” اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی رحمت اور بخشش تمہارے حصہ میں آئے گی یہ ان ساری چیزوں سے بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔ “ (اٰل عمران، آیت : 157) وہ لوگ جو منافق ہیں وہ اللہ کے ایسے مقبول ترین لوگوں کے درجات اور انعامات کا سوچ بھی نہیں سکتے ان لوگوں کی تو یہی تمنا ہوتی ہے کہ دنیا میں مال و دولت کیسے اکٹھا کیا جائے اور دنیا میں عیش و آرام کس طرح کیا جائے اور بس وہ کیا جانیں آخرت کو اور جہاد کو، جہاد کی فضیلتوں کو۔ بلکہ وہ تو ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے ان کی سمجھ بس یہیں تک محدود ہے، اس لیے نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے نصیحت کردی گئی کہ کبھی بھی منافقین اور شریر لوگوں پر اعتبار نہ کرو اور ان کی طرف سے ہمیشہ ہوشیار، خبردار رہو۔ کوشش کرو اور ان کو اپنے حساس محکموں سے بہت دور رکھو۔ یہ تمہارے دشمن ہیں اور اللہ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top