Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
تو (اے پیغمبر ! ) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے
29۔ 34۔ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایتیں ہیں کہ موسم حج میں باہر کے مسافر لوگ مکہ کو آتے تھے اہل مکہ ان دنوں میں کچھ آدمی اطراف مکہ میں بٹھا دیتے تھے کہ وہ ان مسافروں سے آنحضرت ﷺ کی طرح طرح سے مذمت کریں کسی سے کہہ دیں کہ یہ کاہن ہیں کسی سے کہہ دیں کہ یہ دیوانے ہیں کسی سے کہہ دیں کہ یہ شاعر ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں کی باتوں کا کچھ خیال نہ کرو۔ بلکہ تم اللہ کے کلام کے موافق عام لوگوں کو نصیحت کرتے جاؤ یہ لوگ جھوٹے ہیں اللہ نے اپنے فضل سے تم کو نبوت کی نعمت دی ہے۔ تم اللہ کے رسول ہو۔ عرب میں شاعر بہت ہوتے تھے اور عرب کا یہ بھی ایک دستور تھا کہ ہجو کے ڈر سے شاعروں کے منہ پر ان کی مذمت نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جن شاعروں کو مخالف سمجھتے تھے ان شاعروں کی موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ قریش آنحضرت ﷺ کو شاعر خیال کرکے اپنی قوم کے دستور کے موافق آپ کی وفات کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اس لئے فرمایا کہ اپنے گمان میں یہ لوگ اپنے آپ کو بڑا عقل مند گنتے ہیں ان کی عقل میں اتنی بات نہیں آتی کہ یہ اللہ کا کلام نہ ہوتا تو یہ لوگ جو عرب کے فصیح لوگوں میں کہلاتے ہیں اس کے موافق کچھ کلام بنانے سے عاجز کیوں ہوجاتے اور یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ غیب کا یہ حال تو کسی کو معلوم نہیں کہ کس کی موت کب آنے والی ہے لیکن اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے یہ کہہ دو کہ تم لوگ میری موت کا انتظام کرو میں تمہاری موت کا انتظار کرتا ہوں ‘ انجام ہر ایک کا معلوم ہوجائے گا۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اللہ کے رسول کی موت کے انتظار کرنے والے بدر کی لڑائی میں ختم ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں کے بعد اپنے رسول کی جو مدد کی اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسلام کی جو کچھ ترقی ہوئی وہ ظاہر ہے عرب میں مکہ کے لوگ بڑے عقل مند کہلاتے تھے اس لئے یہ بھی فرمایا کہ ان کی عقلوں نے یہی ان کی رہبری کی ہے کہ یہ دیوانوں کی سی باتیں کرتے ہیں کبھی اللہ کے رسول کو دیوانہ کہتے ہیں اور کبھی شاعر حالانکہ دیوانہ وہ ہے جو معمولی باتیں بھی ڈھنگ سے نہیں کرتا اور شاعر غیر معمولی دور دور کی باتوں کی تک بندی کرتا ہے پھر فرمایا کہ شیطان کے بہکانے سے بہک کر یہ لوگ حد سے زیادہ سرکش ہوگئے اور مر کر پھر جینے کا ان کو یقین نہیں ‘ اس واسطے یہ لوگ ایسی خلاف عقل باتیں کرتے ہیں کاہن جاہلی زمانہ میں وہ لوگ تھے جو جنات کی نذر نیا کرتے تھے اور وہ جنات چوری سے آسمان پر کی کچھ باتیں سن کر ان کاہنوں سے آ کر کہہ دیتے تھے اور وہ آئندہ کی جھوٹ سچ خبریں لوگوں کو بتایا کرتے تھے۔
Top