Tafseer-e-Mazhari - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
تو (اے پیغمبر) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے
فذکر فما انت بنعمت ربک بکاھن ولا مجنون . تو آپ سمجھاتے رہیے کیونکہ آپ اللہ کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون ہیں۔ فَذَکِّرْ : اس میں فَ سببیہ ہے (پہلا کلام تذکیر کی علّت ہے) اللہ کی طرف سے وعدہ اور وعید کو پورا کرنا وعظ و نصیحت کے حکم کا سبب ہے۔ فَمَآ اَنْتَ : فَ تعلیلیہ ہے یعنی لوگوں کو نصیحت کیجئے کیونکہ آپ اللہ کے نبی ہیں ‘ اپنے رب کی نعمت یعنی نبوت اور عقل سلیم کے حامل ہیں۔ کاہن اور مجنون نہیں۔ نبوت اور دین کہانت کے منافی ہے۔ اس لیے آپ کاہن نہیں ہیں اور عقل سلیم جنون کے منافی ہے اس لیے آپ مجنون نہیں ہیں۔ آیت کا نزول ان لوگوں کے حق میں ہوا جو مکہ کے پہاڑیوں کی گھاٹیوں میں الگ الگ بٹ کر بیٹھ گئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو کاہن ‘ ساحر اور شاعر کہتے تھے۔ ابن جرید نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ کے معاملہ میں مشورہ کرنے کے لیے قریش دارالندوہ (چوپال) میں جمع ہوئے۔ بعض لوگوں نے کہا : یہ بھی زہیر اور نابغہ کی طرح ایک شاعر ہے۔ اس کو قید کردو یہاں تک کہ خود اپنے وقت پر مرجائے جیسے دوسرے شاعر مرگئے۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top