Al-Quran-al-Kareem - Al-Anfaal : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیرلیا
33۔ 41۔ تفسیر مقاتل تفسیر ابن جریر 3 ؎ تفسیر خازن وغیرہ میں جو مجاہد وغیرہ سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص ولید بن مغیرہ اسلام کی طرف مائل ہوگیا تھا اس کا یہ حال دیکھ کر مشرکین مکہ نے اس کو طرح طرح سے بہکایا اور ان میں سے ایک شخص نے ولید سے یہ بھی کہا کہ تو مجھ کو اتنے روپے دے دے اور اسلام سے پھر جا۔ اگر قیامت سچ ہوئی اور اسلام سے پھرجانے کے بدلہ میں تیرے اوپر کچھ عذاب ہوا تو وہ عذاب میں اپنے ذمہ لے لوں گا اس بہکانے سے ولید اسلام سے پھر گیا اور اس بہکانے والے شخص سے جس قدر روپے ٹھہرے تھے اس میں سے کچھ تو اس شخص کو دیئے اور کچھ روک رکھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ اور پہلے تو ولید کے حق میں فرمایا اے رسول ﷺ اللہ کے اس شخص کا حال دیکھنے کے قابل ہے کہ یہ راہ راست پر آ کر اپنی بےوقوفی سے اس سے پھر گیا اور پھر وہ بیوقوفی بھی ادھوری چھوڑ دی کہ اس جھوٹے قرار داد کے روپے بھی پورے ادا نہیں کئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس قرار داد کی رو سے بھی اس نے اپنے آپ کو عذاب سے پورا سبکدوش نہیں کیا اس کے بعد اس بہکانے والے شخص کے حق میں فرمایا کہ کیا اس کو علم غیب ہے کہ ایک شخص کا عذاب دوسرا شخص اپنے ذمہ لے لے تو یہ ذمہ داری صحیح ہوجاتی ہے۔ شریعت محمدی کے تو اہل مکہ منکر تھے لیکن سوائے شریعت محمدی کے اہل مکہ کے نزدیک اس زمانہ میں دو شریعتیں مشہور تھی ایک تو توارۃ کے موافق شریعت موسوی دوسرے مشرکین مکہ برائے نام اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے اس لئے فرمایا کہ ان دونوں مشہور شریعتوں میں بھی اس طرح کی ذمہ داری کے صحیح ہونے کا کہیں پتا نہیں ہے بلکہ اس کے برخلاف ان دونوں شریعتوں میں یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کے گناہوں کا بوجھ دوسرا نہ اٹھائے گا۔ ہر شخص اپنا کیا خود بھگتے گا اور اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری پوری پوری کی۔ اس لئے ابراھیم الذی ونی فرمایا۔ ابوجعفر ابن 1 ؎ جریر نے دنی کے یہی معنی قتادہ وغیرہ کی روایت سے بیان کئے ہیں جن کا ذکر کیا گیا۔ مفسروں نے وان لیس للانسان الا ما سعی کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں کافر انسان مقصود ہے۔ کلمہ گو گناہ گاروں کی شفاعت کے باب میں جو صحیح حدیثیں ہیں ان سے اور اس قسم کی اور آیات اور حدیثوں سے اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے۔ اس لئے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس تفسیر سے تمام آیات اور احادیث میں مطابقت اچھی طرح ہوجاتی ہے مثلاً اس آیت اور حدیث ابوہریرہ سے جو سب 2 ؎ صحاح کی کتابوں میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو آپ کی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی اور استغفار کی اجازت نہیں دی اور آیت والذین جاء وا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان اور حدیث بریدہ جو صحیح 3 ؎ مسلم مسند امام احمد اور ابن ماجہ میں ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو قبرستان کی زیارت کے وقت اہل ایمان صاحب قبور کے لئے مغفرت کی دعا کی اجازت دی ہے ان سب آیات اور حدیثوں کو ایک جگہ کیا جائے تو ان میں ایک طرح کا اختلاف پیدا ہوجاتا ہے لیکن مغفرت کی دعا کی آیات اور حدیثیں اہل اسلام کے حق میں اور ممانعت کی آیات اور حدیثیں غیر اہل اسلام کے حق میں سمجھی جائیں تو پھر یہ اختلاف رفع ہوجاتا ہے اور سب آیات اور احادیث میں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے اور حاصل مطلب یہ ٹھہرتا ہے کہ اہل اسلام کو مرنے کے بعد دوسرے شخص کے نیک عمل کا فائدہ پہنچتا ہے غیر اہل اسلام کو نہیں پہنچتا کیونکہ اس کے کفر کے سب سے خود اس کی ذات کے نیک عمل کا نہ کچھ ثواب اس کو ملتا ہے نہ دوسرے شخص کے عمل کا۔ چناچہ سورة فرقان میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن اہل کفر اور ریا کاروں کے عمل کچھ کام نہ آئیں گے۔ (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 129 ج 6۔ ) (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 129 ج 6۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم فصل فی جواز زیارۃ جواز زیارۃ قبور المشرکین الخ ص 314 ج 1۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم فصل فی جواز زیارۃ جواز زیارۃ قبور المشرکین الخ ص 314 ج 1۔ )
Top