Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Hashr : 2
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ١ؔؕ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا١ۗ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ١ۗ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
هُوَ : وہی ہے الَّذِيْٓ : جس نے اَخْرَجَ : نکالا الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا مِنْ : سے، کے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ دِيَارِهِمْ : ان کے گھروں سے لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ : پہلے اجتماع (لشکر) پر مَا ظَنَنْتُمْ : تمہیں گمان نہ تھا اَنْ يَّخْرُجُوْا : کہ وہ نکلیں گے وَظَنُّوْٓا : اور وہ خیال کرتے تھے اَنَّهُمْ : کہ وہ مَّانِعَتُهُمْ : انہیں بچالیں گے حُصُوْنُهُمْ : ان کے قلعے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے فَاَتٰىهُمُ : تو ان پر آیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ : انہیں گمان نہ تھا وَقَذَفَ : اور اس نے ڈالا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : ان کے دلوں میں الرُّعْبَ : رعب يُخْرِبُوْنَ : وہ برباد کرنے لگے بُيُوْتَهُمْ : اپنے گھر بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے وَاَيْدِي : اور ہاتھوں الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ : مومنوں فَاعْتَبِرُوْا : تو تم عبرت پکڑو يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ : اے نگاہ والو
وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے گھروں میں سے نکال دیا۔ تمہارے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ انکے قلعے انکو خدا (خدا کے عذاب) سے بجا لیں گے مگر خدا نے ان کو وہاں سے آلیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں سے اجاڑنے لگے۔ تو اے بصیرت کی آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، (مَا ظَنَنْتُمْ ) اے مسلمانو ! تمہارے خیال میں بھی نہ تھا (اَنْ يَّخْرُجُوْا) کہ وہ اپنے گھروں سے نکل جائیں گے کیونکہ ان کے گھر محفوظ اور مصؤن تھے اور وہ ان میں عزت اور غلبے کے ساتھ رہتے تھے۔ (وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ ) اور وہ گمان کررہے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے انہیں ان قلعوں پر بہت غرور تھا ان قلعوں نے ان کو دھوکے میں مبتلا کررکھا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان قلعوں کی وجہ سے ان تک پہنچا جاسکتا ہے اور نہ ان پر کوئی قابو پاسکتا ہے اس کے ماوراء اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا امر مقدر کردیا جس سے انہیں ان کی محفوظ پناہ گاہیں بچاسکیں نہ قلعے اور نہ قوت اور مدافعت ہی کام آسکی ہے۔ اس لیے فرمایا (فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ) پس اللہ نے انہیں وہاں سے آلیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں تھا۔ یعنی اس طریقے اور اس راستے سے جس کے بارے میں انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا کہ یہاں سے ان کو آلیا جائے گا اور وہ یہ بات تھی ( وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ ) کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اس سے مراد شدید خوف ہے جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی سپاہ ہے جس کے سامنے تعداد اور سازو سامان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ طاقت اور بہادری کوئی کام آتی ہے۔ وہ معاملہ جس کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی خلل واقع ہوا تو اس راستے سے داخل ہوگا اور وہ ان کے قلعے تھے جہاں داخل ہو کر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے اور ان قلعوں پر ان کے دل مطمئن تھے جو کوئی غیر اللہ پر بھروسا کرتا ہے وہ بےیارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو کوئی غیر اللہ کا سہارا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال بن جاتا ہے چناچہ ان کے پاس ایک آسمانی معاملہ آیا اور ان کے دلوں میں نازل ہوا جو صبر وثبات اور بزدلی و کمزوری کا کا محل ومقام ہوتے ہیں چناچہ اس نے ان کی قوت اور بہادری کو زائل کردیا اور اس کی جگہ کمزوری اور بزدلی دے دی تھی جس کو دور کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حیلہ نہ تھا اور یہ چیز ان کے خلاف مسلمانوں کی مددگار بن گئی۔ بنابریں فرمایا (يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ) اور وہ یہ کہ انہوں نے رسول اللہ سے اس شرط پر مصالحت کی کہ ان کے اونٹ جو کچھ اٹھائیں سب ان کا ہے اس بنا بر پر انہوں نے رسول اللہ سے اس شرط پر مصالحت کی ان کے اونٹ جو کچھ اٹھائیں سب ان کا ہے اس بنا پر انہوں نے خود اپنے سے اپنے گھروں کی چھتوں کو اکھاڑ ڈالا جو انہیں بہت اچھی لگتی تھی اور اپنی سرکشی کی بنا پر اپنے گھروں کے برباد کرنے اور اپنے قلعوں کے منہدم کرنے پر مسلمانوں کو مسلط کردیا تو یہ وہی ہیں جنہوں نے خود اپنے خلاف جرم کیا اور ان قلعوں اور گھروں کو برباد کرنے میں مددگار بنے۔ ( فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ ) پس اے اہل بصیرت یعنی معاملات کی گہرائی میں اتر جانے والی بصیرت اور کامل عقل والو عبرت حاصل کرو کیونکہ اس واقعے میں عبرت ہے اس سے ان معاندین حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سلوک کی معرفت حاصل ہوتی ہے جو اپنی خواہشات نفس کے پیچھے چلتے ہیں جن کی عزت نے انہین کوئی فائدہ دیا نہ طاقت انہیں بچا سکی جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا اور ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب آپہنچا تو ان کے قلعے ان کی حفاظت نہ کرسکے لہذا اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ اسباب کے خصوص کا، چناچہ یہ آیت کریمہ عبرت حاصل کرنے کے حکم پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے نظیر کے ذریعے سے اس کے نظیر سے عبرت اور کسی چیز کو اس چیز پر قیاس کرنا جو اس سے مشابہت رکھتی ہے اسی عبرت سے عقل کی تکمیل اور بصیرت روشنی ہوتی ہے ایمان میں اضافہ اور حقیقی فہم حاصل ہوتا ہے۔
Top