Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
تو کہہ اسی کو قدرت ہے اس پر کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا بھڑا دے تم کو مختلف فرقے کر کے اور چکھادے ایک کو لڑائی ایک کی، دیکھ کس کس طرح سے ہم بیان کرتے ہیں آیتوں کو تاکہ وہ سمجھ جاویں
خلاصہ تفسیر
آپ ﷺ (یہ بھی) کہئے کہ (جس طرح وہ نجات دینے پر قادر ہے اسی طرح) اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر (تمہارے کفر و شرک کی وجہ سے) کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے (جیسے پتھر یا ہوا یا بارش طوفانی) یا تمہارے پاوں تلے (جو زمین ہے اس) سے (ظاہر کر دے، جیسے زلزلہ یا غرق ہوجانا اور ان عذابوں کے اسباب قریبہ تو اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں، کبھی نہ کبھی ایسا ہوگا خواہ دنیا میں یا آخرت میں) یا کہ تم کو (اغراض کے اختلاف سے مختلف) گروہ گروہ کرکے سب کو (آپس میں) بھڑا دے (یعنی لڑوا دے) اور تمہارے ایک کو دوسری کی لڑائی (کے ذریعے مزہ) چکھا دے (اور اس کا سبب قریب فعل اختیاری ہے، اور یا سب آفتیں جمع کر دے، غرض نجات دینا اور عذاب میں مبتلا کرنا دونوں اسی کے قدرت میں ہیں، اے محمد ﷺ آپ دیکھئے تو سہی ہم کس (کس) طرح دلائل (توحید) کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وہ (لوگ) سمجھ جاویں اور (اللہ تعالیٰ کے عذاب دینے پر قادر ہونے اور کفرو شرک کے سبب عذاب ہونے کو جاننے کے باوجود) آپ کی قوم کے لوگ (قریش اور عرب بھی) اس (عذاب) کی تکذیب کرتے ہیں، (اور اس کے واقع نہ ہونے کے معتقد ہیں) حالانکہ وہ یقینی (واقع ہونے والا) ہے، (اور اس کو سن کر وہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کب ہوگا تو) آپ (یوں) کہہ دیجئے کہ میں تم پر (عذاب واقع کرنے کے لئے) تعینات نہیں کیا گیا ہوں (کہ مجھ کو مفصل اطلاع ہو یا میرے اختیار میں ہو البتہ) ہر خبر کے (مدلول) کے واقع کا ایک وقت (اللہ کے علم میں معین) ہے اور جلدی ہی تم کو معلوم ہوجائے گا (کہ یہ عذاب آیا)۔

معارف و مسائل
پچھلی آیتوں میں اللہ جل شانہ کے وسیع علم اور بےمثال قدرت کا یہ اثر مذکور تھا کہ ہر انسان کی ہر مصیبت کو وہی دور کرسکتا ہے، اور مصیبت کے وقت جو اس کو پکارتا ہے اللہ تعالیٰ کی امداد اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے، کیونکہ اس کو تمام کائنات پر قدرت بھی کامل ہے اور تمام مخلوق پر رحمت بھی کامل، اس کے سوا نہ کسی کو قدرت کاملہ حاصل ہے اور نہ تمام مخلوق پر رحمت و شفقت۔
مذکورہ الصدر آیات میں قدرت کاملہ کے دوسرے رخ کا بیان ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ ہے کہ کوئی عذاب کوئی مصیبت اور کیسی ہی بڑی سے بڑی آفت ہو اس کو ٹال سکتا ہے اسی طرح اس کو اس پر بھی قدرت حاصل ہے کہ جب کسی فرد یا جماعت کو اس کی سرکشی کی سزا اور عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو ہر قسم کا عذاب اس کے لئے آسان ہے، کسی مجرم کو سزا دینے کے لئے دنیا کے حکام کی طرح اس کو نہ کسی پولیس اور فوج کی حاجت ہے اور نہ کسی مددگار کی ضرورت، اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایاقُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ بھیج دے تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا تھیں مختلف پارٹیوں میں بانٹ کر آپس میں بھڑا دے اور ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے عذاب میں ہلاک کر دے۔
عذاب الٓہی کی تین قسمیں
یہاں عذاب الٓہی کی تین قسموں کا ذکر ہے، ایک جو اوپر سے آئے، دوسرے جو نیچے سے آئے، تیسرے جو اپنے اندر سے پھوٹ پڑے، پھر لفظ عذابا کو اس جگہ تنوین کے ساتھ نکرہ لاکر عربی قواعد کے اعتبار سے اس پر بھی متنبہ کردیا کہ ان تینوں قسموں میں بھی مختلف قسمیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں۔
حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اوپر سے عذاب آنے کی مثالیں پچھلی امتوں میں بہت سی گزر چکی ہیں، جیسے قوم نوح ؑ پر بارش کا سخت سیلاب آیا اور قوم عاد پر ہوا کا طوفان مسلط ہوا، اور قوم لوط ؑ پر اوپر سے پتھر برسائے گئے، آل فرعون پر خون اور مینڈک وغیرہ برسائے گئے، اصحاب فیل نے جب مکہ پر چڑھائی کی تو پرندوں کے ذریعہ ان پر ایسی کنکریں برسائی گئیں جس سے وہ سب کے سب کھائے ہوئے بھوسہ کی طرح ہو کر رہ گئے۔
اسی طرح نیچے سے آنے والے عذاب کی بھی پچھلی قوموں میں مختلف صورتیں گزر چکی ہیں قوم نوح ؑ پر تو اوپر کا عذاب طوفان، بارش کے ساتھ اور نیچے کا عذاب زمین کا پانی ابلنا شروع ہوگیا، غرض اوپر اور نیچے کے دونوں عذاب میں بیک وقت گرفتار ہوگئے، اور قوم فرعون پاؤں تلے کے عذاب میں غرق کی گئی، قارون بھی مع اپنے خزانوں کے اسی عذاب میں گرفتار ہوا، اور زمین کے اندر دھنس گیا۔
رسول اکرم ﷺ کے چند ارشادات سے بھی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے، مشکوة شریف میں بحوالہ شعب الایمان بیہقی رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہےکما تکونون کذلک یؤ مر علیکم، یعنی جیسے تمہارے اعمال بھلے یا برے ہوں گے ویسے ہی حکام اور امراء تم پر مسلط کئے جائیں گے، اگر تم نیک اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوگے تو تمہارے حکام و امراء بھی رحم دل، انصاف پسند ہوں گے، اور تم بدعمل ہوگے تو تم پر حکام بھی بےرحم اور ظالم مسلط کردیئے جائیں گے، مشہور مقولہ اعمالکم عمالکم کا یہی مفہوم ہے۔
اور مشکوة میں بحوالہ حلیہ ابی نعیم روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں سب بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں، سب بادشاہوں کے قلوب میرے ہاتھ میں ہیں، جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں اور حکام کے قلوب میں ان کی شفقت و رحمت ڈال دیتا ہوں، اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حکام کے دل ان پر سخت کردیتا ہوں، وہ ان کو ہر طرح کا برا عذاب چکھاتے ہیں، اس لئے تم حکام اور امراء کو برا کہنے میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اپنے عمل کی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ، تاکہ تمہارے سب کاموں کو درست کر دے“۔
اسی طرح ابوداؤد، نسائی میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کپ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
”جب اللہ تعالیٰ کسی امیر اور حاکم کا بھلا چاہتے ہیں تو اس کو اچھا وزیر اور اچھا نائب دیدتے ہیں کہ اگر امیر سے کچھ بھول ہوجائے تو وہ اس کو یاد دلادے اور جب امیر صحیح کام کرے تو وہ اس کی مدد کرے، اور جب کسی حاکم و امیر کے لئے کوئی برائی مقدر ہوتی ہے تو برے آدمیوں کو اس کے وزراء اور ماتحت بنادیا جاتا ہے۔ (الحدیث)
ان روایات اور آیت مذکورہ کی متذکرہ تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو جو تکالیف اور مصائب اپنے حکام کے ہاتھوں پہنچتے ہیں وہ اوپر سے آنے والا عذاب ہے، اور جو اپنے ماتحتوں اور ملازموں کے ذریعہ پہنچتے ہیں وہ نیچے سے آنے والا عذاب ہے، یہ سب کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتے، بلکہ ایک قانونِ الٓہی کے تابع انسان کے اعمال کی سزا ہوتے ہیں، حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو میں اس کا اثر اپنے نوکر اور اپنی سواری کے گھوڑے اور باربرداری کے گدھے کے مزاج میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ یہ سب میری نافرمانی کرنے لگتے ہیں، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ
خلق رابا تو چنیں بدخوکنند
تاترا ناچار رو آنسو کنند
یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہارے بالا دست حکام یا ماتحت ملازموں کے ذریعہ تمہارے خلاف مزاج، تکلیف دہ معاملات کا ظاہری عذاب تم پر مسلط کرکے در حقیقت تمہارا رخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں، تاکہ تم ہوشیار ہوجاؤ اور اپنے اعمال کو درست کرکے آخرت کے عذاب اکبر سے بچ جاؤ۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق حکام کا ظلم وجور اوپر سے آنے والا عذاب ہے، اور ماتحت ملازموں کی بےایمانی، کام چوری، غداری، نیچے سے آنے والا عذاب ہے، اور دونوں کا علاج ایک ہی ہے کہ سب اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور بےراہ روی سے باز آجائیں تو قدرت خود ایسے حالات پیدا کر دے گی کہ یہ مصیبت رفع ہو، ورنہ صرف مادّی تدبیروں کے ذریعہ ان کی اصلاح کی امید اپنے نفس کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں، جس کا تجربہ ہر وقت ہو رہا ہے
خویش رادیدیم و رسوائی خویش
امتحان مامکن اے شاہ بیش
اوپر اور نیچے کے عذاب کی جو مختلف تفسیریں آپ نے ابھی سنی ہیں در حقیقت ان تمام تفسیروں پر حاوی ہے، آسمان سے برسنے والے پتھر، خون، آگ اور پانی کا سیلاب اور بالادست حکام کا ظلم وجور یہ سب اوپر سے آنے والے عذاب میں داخل ہیں، اور زمین شق ہو کر کسی قوم کا اس میں دھنس جانا یا پانی زمین سے ابل کر غرق ہوجانا، یا ماتحت ملازموں کے ہاتھوں مصیبت میں مبتلا ہوجانا یہ سب نیچے سے آنے والے عذاب ہیں۔
تیسری قسم عذاب کی جو اس آیت میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا یعنی تمہاری مختلف پارٹیاں بن کر آپس میں بھڑ جائیں، اور باہم ایک دوسرے کے لئے عذاب بن جائیں، اس میں لفظ یلبسکم، لبس کے مادہ سے بنا ہے، جس کے اصلی معنی چھپالینے اور ڈھانپ لینے کے ہیں، اسی معنی سے لباس ان کپڑوں کو کہا جاتا ہے جو انسان کے بدن کو ڈھانپ لے، اور اسی وجہ سے التباس بمعنی شبہ و اشتباہ استعمال ہوتا ہے جہاں کسی کلام کی مراد مستور ہو صاف اور کھلی ہوئی نہ ہو۔
اسی لئے آیت کا ترجمہ یہ ہوگیا کہ عذاب کی ایک قسم یہ ہے کہ قوم مختلف پارٹیوں میں بٹ کر آپس میں بھڑ جائے، اسی لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا
لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض (اخرجہ ابن ابی حاتم عن ذید بن اسلم) مظہری۔
”یعنی تم میرے بعد پھر کافروں جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو“۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے، ہمارا گزر مسجد بنی معاویہ پر ہوا تو رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی دو رکعت ادا کی، اس کے بعد آپ ﷺ دعا میں مشغول ہوگئے اور بہت دیر تک دعا کرتے رہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا، ایک یہ کہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی، دوسرے یہ کہ میری امت کو قحط اور بھوک کے ذریعہ ہلاک نہ کیا جائے یہ بھی قبول فرمالی، تیسری دعا یہ کہ میری امت آپس میں جنگ و جدل سے تباہ نہ ہو، مجھے اس دعا سے روک دیا گیا (مظہری بحوالہ بغوی)۔
اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے، جس میں تین دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے کہ میری امت پر کسی دشمن کو مسلط نہ فرما دے جو سب کو تباہ و برباد کردے، یہ دعا قبول ہوئی، اور آپس میں نہ بھڑ جائیں اس دعا کو منع کردیا گیا۔
ان روایات سے ثابت ہوا کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام پر اس قسم کے عذاب تو نہ آئیں گے جیسے پچھلی امتوں پر آسمان یا زمین سے آئے جس سے ان کی پوری قوم تباہ و برباد ہوگئی، لیکن ایک عذاب دنیا میں اس امت پر بھی آتا رہے گا، وہ عذاب آپس کی جنگ و جدل اور فرقوں اور پارٹیوں کا باہم تصادم ہے، اسی لئے نبی کریم ﷺ نے امت کو فرقوں اور پارٹیوں میں منقسم ہو کر باہمی آویزش اور جنگ و جدل سے منع کرنے میں انتہائی تاکید سے کام کیا ہے، اور ہر موقع پر اس سے ڈرایا ہے کہ تم پر خدا تعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں اگر آئے گا تو آپس ہی کی جنگ و جدل کے ذریعہ آئے گا۔
سورة ہود کی ایک آیت میں یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت سے آیا ہے
(آیت) ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک (ھود)
”یعنی لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف ہی کرتے رہیں گے بجر ان لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی“۔
اس سے واضح ہوا کہ جو لوگ آپس میں (بلا وجہ شرعی) اختلاف کرتے ہیں وہ رحمت خداوندی سے محروم یا بعید ہیں۔
ایک آیت میں ارشاد ہے(آیت) واعتصموا بحبل اللّیة جمیعا ولا تفرقوا دوسری آیت میں ارشاد ہے(آیت) ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا
ان تمام آیات روایات کا حاصل یہ ہے کہ اختلاف بڑی منحوس اور مذموم چیز ہے، آج دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے مسلمانوں کی پستی اور بربادی کے اسباب پر غور کیا جائے تو اکثر مصائب کا سبب یہی آپس کا اختلاف اور تشتت نظر آئے گا، ہماری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں یہ عذاب ہم پر مسلط ہوگیا، کہ وہ قوم جس کا مرکز اتحاد ایک کلمہ لا آلہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا، اس کلمہ کو ماننے والا زمین کے کسی خطہ میں ہو، کسی زبان کا بولنے والا ہو، کسی رنگ کا ہو، کسی نسل و نسب سے متعلق ہو سب بھائی بھائی تھے، کوہ دریا کی دشوار گزار منازل ان کی وحدت میں حائل نہ تھیں، نسب و خاندان، رنگ و زبان کا تفاوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ تھا، ان کی قومی و حدت صرف اس کلمہ سے وابستہ تھی، عربی، مصری، شامی، ترکی، ہندی، چینی، کی تقسیمیں صرف شناخت اور تعارف کے لئے تھیں اور کچھ نہیں، بقول اقبال مرحوم
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمر قند
آج دوسری قوموں کی دسیسہ کاریوں اور مسلسل کوششوں نے پھر ان کو نسلی اور لسانی اور وطنی قومیتوں میں بانٹ دیا، اور پھر ان میں سے بھی ہر ایک قوم و جماعت اپنے اندر بھی تشتّت اور انتشار کا شکار ہو کر مختلف پارٹیوں میں بٹ گئی، وہ قوم جس کا شعار غیروں سے بھی عفو و درگزر اور ایثار تھا اور جھگڑے سے بچنے کے لئے اپنے بڑے سے بڑے حق کو چھوڑ دیتی تھی، آج اس کے بہت سے افراد ذرا ذرا سی حقیر و ذلیل خواہشات کے پیچھے بڑے سے بڑے تعلق کو قربان کردیتے ہیں، یہی وہ اغراض واہواء کا اختلاف ہے جو قوم و ملت کے لئے منحوس اور اس دنیا میں نقد عذاب ہے۔
ہاں اس جگہ یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ وہ اختلاف جس کو قرآن میں عذاب الٓہی اور رحمت خدا وندی سے محرومی فرمایا گیا ہے وہ اختلاف ہے جو اصول اور عقائد میں ہو یا نفسانی اغراض واہواء کی وجہ سے ہو، اس میں وہ اختلاف رائے داخل نہیں جو قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے اصول اجتہاد کے ماتحت فروعی مسائل میں فقہاء امت کے اندر قرن اول سے صحابہ وتابعین میں ہوتا چلا آیا ہے، جن میں فریقین کی حجت قرآن و سنت اور اجماع سے ہے، اور ہر ایک کی نیت قرآن و سنت کے احکام کی تعمیل ہے، مگر قرآن و سنت کے مجمل یا مبہم الفاظ کی تعبیر اور ان سے جزوی، فروعی مسائل کے استخراج میں اجتہاد اور رائے کا اختلاف ہے، ایسے ہی اختلاف کو ایک حدیث میں رحمت فرمایا گیا ہے۔
جامع صغیر من بحوالہ نصر مقدسی و بہیقی و امام الحرمین یہ روایت نقل کی ہے کہ
اختلاف امتی رحمة،”تیسری امت کا اختلاف رحمت ہے“۔ امت محمدیہ ﷺ کی خصوصیت اس لئے اختیار فرمائی گئی کہ اس امت کے علماءِ حق اور فقہاء متقین میں جو اختلاف ہوگا وہ ہمیشہ اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہوگا، اور صدق نیت اور للہیت سے ہوگا، کوئی نفسانی غرض جاہ و مال کی ان کے اختلاف کی متحرک نہ ہوگی، اس لئے وہ کسی سے جنگ و جدل کا سبب بھی نہ بنے گا، بلکہ علامہ عبد الرؤف منادی شارح جامع صغیر کی تحقیق کے مطابق فقہاء امت کے مختلف مسالک کا وہ درجہ ہوگا جو زمانہ سابق میں انبیاء (علیہم السلام) کی مختلف شرائع کا تھا کہ مختلف ہونے کے باوجود سب کی سب اللہ ہی کے احکام تھے، اسی طرح مجتہدین امت کے مختلف مسلک اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے سب کے سب احکام خدا و رسول ﷺ ہی کہلائیں گے۔
اس اجتہادی اختلاف کی مثال محسوسات میں ایسی ہے جیسے شہر کی بڑی سڑکوں کو چلنے والوں کی آسانی کے لئے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے، ایک حصہ پر بسیں چلتی ہیں دوسرے پر دوسری گاڑیاں یا ٹرام، اسی طرح سائیکل سواروں اور پیادہ چلنے والوں کے لئے روڈ کا علیحدہ ایک حصہ ہوتا ہے، ایک روڈ کی کئی حصوں میں یہ تقسیم بھی اگرچہ ظاہرہ طور پر ایک اختلاف کی صورت ہے، مگر چونکہ سب کا رخ ایک ہی سمت ہے اور ہر ایک پر چلنے والا ایک ہی منزل مقصود پر پہنچے گا، اس لئے راستوں کا یہ اختلاف بجائے مضر ہونے کے مفید اور چلنے والوں کے لئے وسعت و رحمت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ائمہ مجتہدین اور فقہاء امّت کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی کا مسلک باطل نہیں، اور جو لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں، ان کو دوسروں کے نزدیک گنہگار کہنا جائز نہیں، ائمہ مجتہدین اور فقہاء امت کے مذاہب کے اختلاف کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ ایک مجتہد نے جو مسلک اختیار کیا ہے وہ اس کے نزدیک راجح ہے مگر اس کے مقابل دوسرے مجتہد کے مسلک کو بھی وہ باطل نہیں کہتے، بلکہ ایک دوسرے کا پورا احترام کرتے ہیں، فقہاء صحابہ وتابعین اور ائمہ اربعہ کے بیشمار حالات و واقعات اس پر شاہد ہیں کہ فقہی مسلک بہت سے مسائل میں مختلف ہونے اور علمی بحثیں جاری رہنے کے باوجود ایک دوسرے کا مکمل اعتقاد و احترام کرتے تھے، جنگ و جدل اور خصومت و عداوت کا وہاں کوئی احتمال ہی نہ تھا، مذاہب فقہاء کے متبعین اور مقلدین میں بھی جہاں تک صحیح علم و دیانت رہے ان کے بھی باہمی معاملات ایسے ہی رہے۔
یہ اختلاف ہے جو رحمت اور لوگوں کے لئے وسعت و سہولت کا ذریعہ اور بہت سے مفید نتائج کا حامل ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ فروعی مسائل میں راویوں کا اختلاف جہاں تک اپنی حد کے اندر ہے وہ کوئی مضر چیز نہیں، بلکہ مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو کھولنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں معین ہے، اور جہاں دیانت دار عقلاء جمع ہوں گے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مسئلہ میں ان کا اختلاف نہ ہو، ایسا قانون تو یا بےعقلوں میں ہوسکتا ہے جن کو کوئی سمجھ بوجھ نہ ہو، یا بےدینوں میں ہوسکتا ہے جو کسی پارٹی وغیرہ کی رعایت سے خلاف ضمیر رائے میں اتفاق کا اظہار کریں۔
اختلاف رائے جو اپنی حدود کے اندر ہو، یعنی قرآن و سنت کے قطعی اور اعتقادی مسائل اور قطعی احکام میں نہ ہو، صرف فروعی مسائل اجتہادیہ میں ہو، جن میں قرآن و سنت کی نصوص ساکت یا مبہم ہیں، اور وہ بھی جنگ و جدل اور لعن و طعن کی حد تک نہ پہنچے تو وہ بجائے مضر ہونے کے مفید اور ایک نعمت و رحمت ہے، جیسے کائنات عالم کی تمام چیزوں کا شکل و صورت، رنگ و بو اور خاصیت و منفعت میں اختلاف ہے، حیوانات میں لاکھوں مختلف قسمیں بنی نوع انسان میں مزاجوں اور پیشوں، صنعتوں اور رہن و سہن کے طریقوں میں اختلاف، یہ سب اس عالم کی رونق بڑھانے والے اور بیشمار منافع کے اسباب ہیں۔
بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہب فقہاء اور علماء حق کے فتوؤں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ علماء میں اختلاف ہے تو کدھر جائیں، حالانکہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے معاملہ میں ڈاکٹروں طبیبوں کا اختلاف رائے ہوتا ہے تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار کون ہے، بس اس کا علاج کرتے ہیں، دوسرے ڈاکٹروں کر برا نہیں کہتے، مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہوجاتا ہے، تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں، دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے، یہی اصول یہاں ہونا چاہئے، جب کسی مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہوجائیں تو مقدور بھر تحقیق کرنے کے بعد جس عالم کو علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ اور افضل سمجھیں اس کا اتباع کریں اور دوسرے علماء کو برا بھلا کہتے نہ پھریں۔
حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے کہ ماہر مفتی کا انتخاب اور درصورت اختلاف ان میں سے اس شخص کے فتوے کو ترجیح دینا جو اس کے نزدیک علم اور تقوی میں سب سے زیادہ ہو، یہ کام ہر صاحب معاملہ مسلمان کے ذمہ خود لازم ہے، اس کا کام یہ تو نہیں کہ علماء کے فتو وں میں کسی فتوے کو ترجیح دے لیکن یہ اسی کا کام ہے کہ مفتیوں اور علماء میں سے جس کو اپنے نزدیک علم اور دیانت کے اعتبار سے زیادہ افضل جانتا ہے اس کے فتوے پر عمل کرے، مگر دوسرے علماء اور مفتیوں کو برا کہتا نہ پھرے، ایسا عمل کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک وہ بالکل بری ہے، اگر حقیقةً کوئی غلطی فتویٰ دینے والے سے ہو بھی گئی تو اس کا وہی ذمہ دار ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نہ ہر اختلاف مطلقاً مذموم اور نہ ہر اتفاق مطلقاً محمود و مطلوب ہے۔ اگر چور، ڈاکو، باغی ایک جماعت بنا کر باہم متفق ہوجائیں تو کون نہیں جانتا کہ ان کا یہ اتفاق مذموم اور قوم کے لئے مہلک ہے اور اس کے خلاف جو سعی وعمل عوام یا پولیس وغیرہ کی طرف سے اس جماعت کی مخالفت میں ہوتا ہے وہ ہر عقلمند کی نظر میں اختلاف محمود و مفید ہے۔
معلوم ہوا کہ خرابی اختلاف رائے میں نہیں اور نہ کسی ایک رائے پر عمل کرنے میں ہے بلکہ ساری خرابیاں دوسروں کے متعلق بدگمانی اور بدزبانی سے پیش آتی ہیں جو علم و دیانت کی کمی اور اغراض واہنواء کی زیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے، اور جب کسی قوم یا جماعت میں یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے تو ان کے لئے یہ اختلاف رحمت بھی اختلاف عذاب کی صورت میں منتقل ہوجاتا ہے، اور مسلمانوں کی پارٹیاں بن کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل اور بعض اوقات قتل و قتال تک میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور ایک دوسرے کے خلاف لعن طعن اور دل آزار کلمات کو تو مذہب کی حمایت سمجھ لیا جاتا ہے، حالانکہ مذہب کا اس غلو اور زیادتی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ یہ وہی جدال ہے جس سے رسول کریم ﷺ نے شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے، صحیح احادیث میں اس کو قوموں کی گمراہی کا سبب قرار دیا ہے (ترمذی، ابن ماجہ)
Top