Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّمَا : جو کچھ غَنِمْتُمْ : تم غنیمت لو مِّنْ : سے شَيْءٍ : کسی چیز فَاَنَّ : سو لِلّٰهِ : اللہ کے واسطے خُمُسَهٗ : اس کا پانچوا حصہ وَلِلرَّسُوْلِ : اور رسول کے لیے وَ : اور لِذِي الْقُرْبٰي : قرابت داروں کے لیے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافروں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اٰمَنْتُمْ : ایمان رکھتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلٰي : پر عَبْدِنَا : اپنا بندہ يَوْمَ الْفُرْقَانِ : فیصلہ کے دن يَوْمَ : جس دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : دونوں فوجیں بھڑ گئیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا ہے
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول ﷺ کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مٹھ بھیڑ ہوگئی اپنے بندے (محمد ﷺ پر نازل فرمائی اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
41۔ غنیمت اور فے دوچیزیں جدا جدا ہیں غنیمت وہ ہے جو سوارپیادوں کا لشکر دشمنوں پر حملہ کر کے لڑے بھڑے اس جنگ میں جو کچھ مال ومتاع قلیل یا کثیر ہاتھ آوے وہ سب مال غنیمت ہے اور فے وہ مال ہے جو دشمنوں سے بےلڑے بھڑے حاصل ہو مثلا جو کچھ صلح میں مقرر ہو یا کوئی لاوارث شخص مسلمانوں کے ملک میں ہو اس کے مرنے کے بعد جو کچھ اس کا سامان مسلمانوں کے ہاتھ لگے یا خراج کے طور پر مال ملے یہ سب فے ہے فے کے احکام سورة حشر میں مذکور ہیں یہاں اللہ پاک نے مال غنیمت کے احکام بیان فرمائے یہ غنیمت اور کسی نبی کے وقت میں حلال نہ تھی بلکہ اور انبیاء کے زمانہ میں جب کسی نبی کو مال غنیمت ہاتھ لگتا تھا تو اس کو ایک جگہ میدان میں جمع کردیا کرتے تھے آسمان سے ایک آگ آکر اس کو جلا جاتی تھی۔ اللہ پاک نے محض اپنے کرم سے اس مال غنیمت کو اس امت کے لئے حلال ومباح کیا ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو مجھے غلبہ ہوتا ہے۔ میرے 3۔ لئے غنیمت حلال کی گئی ہے جو پہلے مجھ سے کسی کے واسطے مباح نہ تھی۔ میرے 4۔ لئے ساری زمین مسجد بنادی گئی جہاں چاہوں نماز پڑھ لوں۔ میرے 5۔ واسطے قیامت کے دن کی شفاعت مقرر ہے میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا اس حدیث کو ابن عباس ؓ کی روایت ہے امام احمد نے سند جید سے روایت کیا ہے اور ایک حدیث اسی مضمون کی ابوہریرہ ؓ کی صحیحین میں ہے مگر اس میں چھٹی چیز کا بھی ذکر ہے کہ مجھ پر نبوت ختم کردی گئی ہے بہر حال اللہ پاک نے غنیمت کا مال یوں تقسیم کرنے کو فرمایا کہ کل مال غنیمت کی چھوٹی بڑی چیز ایک جگہ کر کے اس کے پانچ حصہ کرو چار حصہ تو غازیوں کے ہیں جو لڑائی میں شریک تھے خواہ پیچھے گئے ہوں یا پہلے گئے ہوں بلا نیت کے شریک ہوئے ہوں یا نیت کر کے گئے ہوں سوار کو دو حصہ دئے جائیں اور پیادہ کو ایک حصہ اور وہ ایک حصہ جو رہا اس کے پھر پانچ حصہ کئے جائیں ایک حصہ ان میں سے حضرت ﷺ کا ہے اور دوسرا حصہ آپ کے قرابت مندوں کا تیسرا حصہ یتیموں کا چوتھا حصہ مسکینوں کا پانچواں حصہ محتاج مسافروں کا اور اللہ پاک نے اپنا ذکر اس آیت میں تبرک کے طور پر بیان کیا ہے اپنا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور اکثر مفسروں کا یہی قول ہے کہ یہ جملہ فان للہ خمسہ برکت کے لئے ہے کیونکہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا ہے غرض اس خمس میں اللہ اور اس کے رسول کا ایک ہی حصہ ہے کوئی علیحدہ علیحدہ نہیں ہے حضرت ﷺ اس حصہ کو جو چاہیں کریں چاہے جس کو دیں آنحضرت ﷺ مال غنیمت میں سے کوئی چیز پسند کرتے تھے تو اس کو بطور نفل کے لے لیتے تھے معتبر سند سے مسند امام احمد اور ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ﷺ نے بدر کی لڑائی میں تلوار ذوالفقار بطور نفل کے لی تھی حصہ سے بڑھ کر جو چیز ہو وہ نفل ہے ابوداؤد میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے کہ صفیہ ؓ بھی اس نفل کے طور پر تھیں کہ جنگ خیبر میں جو غنیمت ہاتھ لگی تھی اس میں سے آپ نے ان کو پہلے اپنے لئے منتخب کرلیا تھا حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث مسند حاکم میں بھی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے ذوالقربی سے مراد بنی ہاشم اور بنی مطلب ہی بنی نوفل اور بنی عبدالشمس اگرچہ آپ کی چچا کی اولاد میں ہیں مگر یہ لوگ ذوالقر بے میں نہیں ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب ایک ہیں اور دونوں انگلیوں کو ملا کر بتلایا کہ اس طرح پھر ان میں بھی اس کی رعایت کی جاتی تھی کہ مردوں کو پہلے دیتے تھے اور مردوں کے ہوتے ہوئے عورتوں کو جو بنی ہاشم اور بنی مطلب کی اولاد میں تھیں ان کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا چناچہ آنحضرت عثمان ؓ اور زبیر ؓ کی والدہ بنی ہاشم میں سے تھیں انہیں کچھ نہیں دیا کرتے تھے یتمیٰ سے مراد مسلمانوں کے یتیم بچے ہیں مسکین وہ ہے جو گذرا وقات کے موافق آمدنی نہ رکھتا ہو ابن السبیل وہ لوگ جو سفر میں ہوں اور محتاج ہوں ان کے پاس اتنا نہ ہو کہ سفر میں خرچ کرسکیں پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ جو حکم مال غنیمت میں ہم نے جاری کیا ہے اور جس طرح اس کے پاس اتنا نہ ہو کہ سفر میں خرچ کرسکیں پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ جو حکم مال غنیمت میں ہم نے جاری کیا ہے اور جس طرح اس کی تقسیم کردی ہے اگر تم لوگ اللہ پر اور قرآن کی آیتوں پر ایمان لائے ہو تو تم اس حکم کو بجالاؤ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یوم الفرقان یوم بدر ہے اس کو یوم الفرقان اس واسطے کہا کہ اس روز حق وناحق میں فرق ہوگیا حق غالب ہوا اور ناحق کا دعویٰ مغلوب ہوا یوم التقی الجمعان بھی وہی بدر کا دن ہے یہ پہلا معرکہ تھا جو حضرت ﷺ اور مسلمانوں کو کفاروں کے ساتھ پیش آیا تھا بدر کی لڑائی میں مشرکوں کا سردار عتبہ بن ربیعہ تھا رمضان کی سترہویں تاریخ روز جمعہ کو یہ معرکہ آرائی ہوئی تھی مسلمان کچھ اوپر تین سو تھے اور کفار ایک ہزار تھے ستر آدمی کفار کے ہلاک ہوئے اور اسی قدر گرفتار ہو کر آئے پھر اللہ پاک نے فرمایا کر یہ خدا ہی میں قدرت ہے جو اتنے قلیل لشکر کو اتنے بڑے گروہ پر اس نے غالب کردیا وہ ہر شے پر قادر ہے اس کے نزدیک کوئی بات مشکل نہیں ہے شروع سورت میں یہ جو فرمایا تھا کہ مال کا حق اللہ اور رسول کو ہے جس طرح اللہ کی مرضی ہوگی اسی طرح وہ اس مال کی تقسیم اپنے رسول کی معرفت کراوے گا اب اس آیت میں اس وعدہ کو پورا فرما دیا غرض وما انزلنا علی عبدنا سے مقصود وہی شروع سورة کا وعدہ ہے جو انفال للہ والرسول فرما کر نازل فرمایا تھا۔ بدر کی لڑائی پہلی لڑائی تھی اور تنگ دستی کے سبب سے لشکر اسلام کو روپیوں کی ضرورت بھی تھی اس لئے بغیر پانچواں حصہ نکالے کے اللہ کے رسول نے اس لڑائی کی غنیمت کا سب مال تو لشکر اسلام کو بانٹ دیا لیکن آئندہ سے غنیمت کے مال کے یہ پانچ حصے اور پانچویں حصے کے پھر پانچ حصے اس طرح قرار پائے جس کا ذکر اس آیت میں ہے اوپر یہ جو گذرا کہ اللہ کے رسول ﷺ اگر غنیمت کے مال میں کوئی چیز پسند کرلیتے تھے تو پانچویں حصہ کے علاوہ بھی آپ کو اس کا لینا جائز تھا مثلا بدر کے مال غنیمت میں سے تلوار ذوالفقار اور خیبر کے مال میں سے صفیہ بنت حیی کو آپ نے پسند کیا تھا یہ قول بعضے سلف کا ہے باقی سلف اس کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد علاوہ پانچویں حصہ کے اور کوئی زیادہ چیز کبھی اللہ کے رسول نے نہیں لی یہ باقی کے سلف ذوالفقار کا جواب تو یہ دیتے ہیں کہ یہ قصہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور صفیہ دحیہ کلبی کے حصہ میں گئی تھیں اور پھر آنحضرت ﷺ نے ان کو دحیہ کلبی سے خرید لیا حاصل یہ ہے کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے اسی طرح یہ مسئلہ بھی اختلافی ہے کہ سوار کے تین حصے ہیں زیادہ تفصیل ان اختلافی مسئلوں کی بڑی کتابوں میں ہے :۔
Top