Al-Quran-al-Kareem - Ar-Ra'd : 9
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ
عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا ہر غیب وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر الْكَبِيْرُ : سب سے بڑا الْمُتَعَالِ : بلند مرتبہ
وہ غیب اور حاضر کو جاننے والا، بہت بڑا، نہایت بلند ہے۔
عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ۔۔ :”الْكَبِيْرُ“ میں بھی مبالغہ ہے اور ”الْمُتَعَالِ“ (جو اصل میں ”عَلَا یَعْلُوْ“ کے باب تفاعل سے ”مُتَعَالِوٌ“ تھا) میں حروف زیادہ ہونے سے معنی میں مبالغہ مراد ہے۔ ”مُتَعَالِوٌ“ کی ”واؤ“ کو ”یاء“ سے بدلا تو ”مُتَعَالِیٌ“ ہوا، پھر ”یاء“ کو آیات کے آخری الفاظ (جنھیں اصطلاح میں فاصلہ، فواصل کہتے ہیں) کی موافقت اور تخفیف کے لیے حذف کردیا گیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور اس کی کبریائی اور بلندی کا بیحد و حساب ہونا بیان ہوا ہے، جو درحقیقت پچھلی بات ہی کی تاکید ہے۔ ”الْغَيْبِ“ مصدر ہے، بمعنی اسم فاعل، یعنی غائب جو حواس اور بدیہ عقل سے غائب ہو۔ ”وَالشَّهَادَةِ“ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی جو شاہد و حاضر ہے۔ اسم فاعل کو مصدر کی صورت میں لانے سے مبالغہ مقصود ہے، جیسے ”زَیْدٌ عَادِلٌ“ کے بجائے ”زَیْدٌ عَدْلٌ“ کہتے ہیں۔
Top