Tadabbur-e-Quran - Hud : 17
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ١ۚ فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ١ۗ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَفَمَنْ : پس کیا جو كَانَ : ہو عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : کھلا راستہ مِّنْ رَّبِّهٖ : اپنے رب کے وَيَتْلُوْهُ : اور اس کے ساتھ ہو شَاهِدٌ : گواہ مِّنْهُ : اس سے وَمِنْ قَبْلِهٖ : اور اس سے پہلے كِتٰبُ مُوْسٰٓى : موسیٰ کی کتاب اِمَامًا : امام وَّرَحْمَةً : اور رحمت اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِهٖ : اس پر وَمَنْ : اور جو يَّكْفُرْ بِهٖ : منکر ہو اس کا مِنَ الْاَحْزَابِ : گروہوں میں فَالنَّارُ : تو آگ (دوزخ) مَوْعِدُهٗ : اس کا ٹھکانہ فَلَا تَكُ : پس تو نہ ہو فِيْ مِرْيَةٍ : شک میں مِّنْهُ : اس سے اِنَّهُ الْحَقُّ : بیشک وہ حق مِنْ رَّبِّكَ : تیرے رب وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک برہان پر ہے، پھر اس کے بعد اس کی طرف سے ایک گواہ بھی آجاتا ہے اور اس کے پہلے سے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت کی حیثیت سے موجود ہے اور وہ جو نور بصیرت سے محروم ہیں، دونوں یکساں ہوجائیں گے ؟ اس پر ایمان تو وہی لوگ لائیں گے اور جماعتوں میں سے جو اس کا انکار کریں گے ان کا موعود ٹھکانا بس دوزخ ہے پس تم اس کے باب میں کسی شک میں نہ پڑو، یہی تمہارے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ اس کو نہیں مانتے
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ۔ اب یہ پیغمبر ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ جو لوگ قرآن سے گریز و فرار کے لیے یہ بہانے تراش رہے ہیں ان کی اصل بیماری یہ ہے کہ ان کی فطرت کا نور بجھ چکا ہے اور جن کی فطرت کا نور بجھ چکا ہے اور جن کی فطرت کا نور بجھ چکا ہو وہ قرآن پر ایمان لانے والے نہیں بن سکتے۔ اس پر ایمان لانے والے وہی بنیں گے جن کی فطرت مسخ ہونے سے محفوط ہو۔ وہ بیشک پہلے سے بنیادی حقائق کے باب میں اپنے اندر ایک دلیل وبرہان رکھتے ہیں، پھر جب اس کے بعد اوپر سے بھی قرآن کی شکل میں ان کے سامنے ایک شہادت آجاتی ہے تو وہ انہیں بعینہ اپنے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ اپنے دل میں پا رہے ہیں اس کی تائید و تصدیق اس آسمانی شاہد کی زبان سے بھی ہو رہی ہے۔ اس طرح کے استفہامیہ پر جملوں میں بعض اوقات مقابل جملہ حذف کردیا جاتا ہے جو قرینہ سے سمجھا جاتا ہے۔ گویا پوری بات یوں ہوگی کہ کیا وہ لوگ جن کے سامنے یہ یہ روشنیا ہیں اور وہ لوگ جو ان تمام روشنیوں سے محروم ہیں، قرآن پر ایمان لانے کے معاملے میں یکساں ہوں گے ؟ یہ نہیں ہوسکتا۔ اس پر ایمان وہی لوگ لائیں گے جو نور فطرت سے بہرہ مند ہیں اور اس امر سے بھی آشنا ہیں کہ اس سے پہلے اسی طرح کی کتاب ہدایت و رحمت بن کر موسیٰ پر بھی اتر چکی ہے۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے قرآن بیشک ایک مانوس چیز ہے۔ وہ جب اس کو سنتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ اپنے صحیفہ فطرت میں پا رہے تھے اسی کی تصدیق و تائید خدا کی طرف سے ایک شاہد کے ذریعہ سے بھی سامنے آگئی۔ چناچہ ایسے ہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان لائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس کی مخالفت میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں ان کی محرومی کے اسباب خود ان کے اندر موجوں ہیں۔ ان کی دل کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں۔ ان سے کسی خیر کی امید نہ رکھو۔ " بینہ " سے مراد نور فطرت ہے : بینۃ کے معنی روشن دلیل اور واضح حجت کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، وہ نور فطرت ہے جو حق و باطل اور خیر و شر کے مبادی کے امتیاز کے لیے خدا نے خود ہمارے اندر ودیعت فرمایا ہے۔ جن کی فطرت خارج کے برے اثرات سے جتنی ہی محفوظ ہوتی ہے ان کے اندر یہ نور اتنا ہی قوی ہوتا ہے۔ چناچہ حضرات انبیاء اس سے کامل طور پر بہرہ مند ہوتے ہیں۔ ان کا باطن وحی کے نور سے منور ہونے سے پہلے بھی اس نور سے نورانی ہوتا ہے۔ ان کے لیے وحی کی حیثیت تاریکی پر روشنی کی نہیں بلکہ جیسا کہ سورة نور میں ارشاد ہوا ہے، نور علی نور، یعنی روشنی پر روشنی کی ہوتی ہے۔ آگے اسی سورة کی آیات 28، 63، 88 میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے۔ عام لوگوں میں سے جو لوگ انبیاء کی دعوت قبول کرنے میں سبقت کرتے ہیں وہ بھی علی فرق مراتب اس نور سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور جس کے اندر یہ نور جتنا ہی قوی ہوتا ہے وہ اسی اعتبار سے ان کی طرف سبقت بھی کرتا ہے اور اسی نسبت سے ان کا دست وبازو بھی بنتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اپنی شامت اعمال سے اس نور کو بجھا کر ظلمات بعضہا فوق بعض، کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ ضمیروں کے باب میں ایک خاص اسلوب : یہاں یہ بات بھی یاد رکھیے کہ اس طرح کے الفاظ کے معاملہ میں جن کی تانیث غیر حقیقی ہوتی ہے، یہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ان کے لیے ضمیر لانے میں لفظ کے ظاہر کا لحاظ کیا جائے بلکہ ضمیر مذکر بھی لا سکتے ہیں اگر لفظ کا اصلی مصداق مذکر ہو۔ چناچہ یہاں " یتلوہ " میں اس کے لیے ضمیر مذکر ہی آئی ہے اس لیے کہ اس سے مراد درحقیقت وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن کے دوسرے مقامت میں نور، برھان، اور سلطان وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ َيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ۔ تلا یتلو کے معنی یہاں کسی چیز کے بعد اور پیچھے ٓنے کے ہیں اور منہ میں ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنے فضل سے پہلے تو ہماری فطرت کے اندر وہ سب کچھ ودیعت فرما دیا جس کی قرآن دعوت دیتا ہے پھر اپنے مزید فضل سے اس نے لسان غیب کے ذریعے سے اس سارے ریکارڈ کو ہمیں سنا بھی دیا تاکہ کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ شاھد، سے مراد یہاں وہ وحی الٰہی ہے جس کا مظہر قرآن ہے، جس کے لانے والے جبرائیل امین اور جس کے حامل پیغمبر ﷺ ہیں۔ حضرت ابن عباس نے، شاہد، سے جبرائیل امین کو مراد لیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات صحیح ہے۔ وحی قرآن، جبرائیل اور پیغمبر میں فرق صرف تعبیر کا ہے۔ خدا کے شاہد ہونے کے اعتبار سے ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ چناچہ قرآن میں یہ لفظ ان سب کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قرآن کے حق میں پہلے کی شہادت : وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ، یعنی پہلے کی شہادتوں میں سے یہ شہادت بھی قرآن کی تصدیق و تائید کے لیے ان کے سامنے موجود ہے کہ اسی طرح کی ایک کتاب، اسی طرح کی تعلیمات و ہدایات بلکہ اس کی اور اس کے حامل کی پیشین گوئیوں کے ساتھ اس سے پہلے امام اور رحمت بن بن کر موسیٰ پر بھی اتر چکی ہے۔ " امام " اور " رحمت " کے الفاظ یہاں اسی طرح آئے ہیں جس طرح بعض دوسرے مقامات میں " ھدی " اور " رحمت " کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں ھدی کے مفہوم کو امام کے لفظ سے تعبیر فرایا ہے اس لیے کہ رہنمائی کا مضمون دونوں لفظوں کے اندر یکساں موجود ہے۔ ہم نے دوسرے مقام میں ان دونوں لفظوں کی تشریح کی ہے کہ یہ آغاز و انجام کے اعتبار سے استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی یہ کتاب اس دنیا میں صراط مستقیم کی ہدایت و رہنمائی ہے اور جو لوگ اس ہدایت و رہنمائی کو قبول کرلیں ان کے لیے آخرت میں ابدی فضل و رحمت کا پیش خیمہ ہے۔ یہود کی بدبختی کی طرف اشارہ : یہاں ایک لطیف اشارہ بھی قابل توجہ ہے۔ اس سورة میں مخاطب چونکہ اصلاً قریش ہیں اس وجہ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے لیے کتاب موسیٰ کی نظیر کچھ زیادہ مؤثر نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ قریش اول تو مذہبی علم و فضل کے اعتبار سے اہل کتاب کے معترف تھے ثانیاً یہاں قرآن ایک ہلکا سا اشارہ ان یہود کی طرف بھی کر دنیا چاہتا ہے جن کو ایک " امام و رحمت " کتاب کے حامل ہونے کے سبب سے قرآن کی طرف سب سے پہلے سبقت کرنے والا بنتا تھا لیکن وہ سبقت کرنے کے بجائے اندر اندر اس کی مخالفت کے لیے سازشوں کی تیاریاں کر رہے تھے۔ قرآن نے ایک نہایت لطیف اشارے کی شکل میں ان کو توجہ دلا دی کہ ان کے مرتبہ و مقام کا تقاضا کیا ہے اور اگر انہوں نے اس کے خلاف کیا تو وہ اپنے آپ کو کس گڑھے میں گرائیں گے۔ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ میں حصر کا مضمون پایا جاتا ہے۔ یعنی یہی لوگ جن کی خصوصیات اوپر بیان ہوئیں قرآن پر ایمان لائیں گے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو لوگ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں ان خصوصیات سے مھروم ہیں۔ چونکہ یہ بات کلام کے سیاق سے واضح تھی اس وجہ سے حذف کردی گئی۔ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ، احزاب کے لفظ میں ذرا وسعت ہے۔ قرآن نے اپنے سامنے کے مخالفین کے ساتھ ساتھ ان مخالفین کی طرف بھی ہلکا سا اشارہ کردیا ہے جو ابھی اس مرحلے تک تو اگرچہ پردے کے پیچھے تھے لیکن بعد کے مراحل میں نہایت خطرناک دشمن بن کر سامنے آئے۔ یعنی اہل کتاب۔ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ۔ یہ خطاب اگرچہ عام بھی ہوسکتا ہے لیکن ہمارے نزدیک خطاب پیغمبر ﷺ ہی سے ہے۔ البتہ اس طرح کے جملوں میں جو خطاب ہوتا ہے اس کا رخ، جیسا کہ ہم دوسرے مقامات میں واضح کرچکے ہیں، مخالفین کی طرف ہوتا ہے لیکن وہ لائق التفات نہیں رہ جاتے اس وجہ سے ان کو خطاب کر کے بات براہ راست کہنے کی بجائے پیغمبر کو خطاب کر کے کہہ دی جاتی ہے۔ زجر و ملامت کا یہ اسلوب بسا اوقات براہ راست زجر و تنبیہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کی نہایت دلآویز مثالیں موجود ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ شامت زدہ لوگ اس واضح حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں تو جھٹلائیں، ان کی اس روش سے تم کسی الجھن میں نہ پڑو۔ یہی حقیقت ہے اور یہ تمہارے رب کی طرف سے ہے لیکن اکثر لوگ اپنی بدبختی کے سبب سے ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ مضمون سورة رعد کی آیت 19 میں بیان ہوا ہے۔ وہاں انشاء اللہ ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔ سورة یونس کی آیت 94۔ 95 کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔
Top