Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 92
فَوَرَبِّكَ لَنَسْئَلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
فَوَرَبِّكَ : سو تیرے رب کی قسم لَنَسْئَلَنَّهُمْ : ہم ضرور پوچھیں گے ان سے اَجْمَعِيْنَ : سب
سو تیرے رب کی قسم ہے ! یقینا ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے۔
فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ۔۔ : ”یَعْمَلُوْنَ“ میں دل، زبان اور جسم کے تمام حصوں کے افعال شامل ہیں۔ اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ”اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ“ (بےشک قیامت آنے والی ہے) ، اب اسی بات کو آگے بڑھایا کہ تیرے رب کی قسم ! ہم ان سب سے سوال کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی سے سوال کرنا ہی نہایت خوفناک بات ہے، خصوصاً جب زبان، دل اور اعضا کے ہر ہر عمل کے متعلق ہو۔ آسان حساب صرف انھی کا ہوگا جن کا دفتر پیش ہونے پر کسی سوال و جواب کے بغیر نجات ہوجائے گی۔ دیکھیے سورة انشقاق (7 تا 9) کی تفسیر۔ قسم کھا کر تمام کفار سے باز پرس کا یقین دلانے سے مقصود نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو تسلی دینا ہے۔ ان آیات میں ذکر ہے کہ قیامت کے دن تمام کفار سے سوال کیا جائے گا، جب کہ سورة رحمن میں ہے : (فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ) [ الرحمٰن : 39 ] ”پھر اس دن نہ کسی انسان سے اس کے گناہ کے متعلق سوال کیا جائے گا اور نہ کسی جن سے۔“ ایک آیت میں ہے سوال کیا جائے گا، دوسری میں ہے کہ نہیں کیا جائے گا، تو ابن عباس ؓ نے اس کا جواب یہ دیا کہ کسی سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تم نے کیا کیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو بندوں سے بھی زیادہ یہ بات جانتا ہے۔ سوال یہ ہوگا کہ کیوں کیا ؟ اور ظاہر ہے کہ یہ سزا کی تمہید ہے۔ (ابن کثیر)
Top