Tafseer-e-Usmani - Ar-Rahmaan : 8
وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کی موت اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّسْمَعُوْنَ : وہ سنتے ہیں
اور اللہ نے آسمان سے کچھ پانی نازل کیا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیا۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نشانی ہے جو سنتے ہیں۔
وَاللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۔۔ : ”السَّمَاۗءِ“ ”سِمْوٌ“ سے مشتق ہے جس کا معنی بلندی ہے، اس لیے ہر اونچی چیز کو ”سَمَاءٌ“ کہہ لیتے ہیں۔ یہاں مراد بلندی سے اتارنا بھی ہوسکتا ہے اور بادل سے بھی۔ یہاں پانی کی نعمت کی طرف توجہ دلائی ہے جو زندگی کا اصل ہے، فرمایا : (ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ) [ الأنبیاء : 30 ] ”اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی۔“ یعنی زمین مردے کی طرح خشک پڑی تھی، نہ اس میں زندگی کے کوئی آثار تھے، نہ گھاس پھونس، نہ پھول پتیاں اور نہ کیڑے مکوڑے، اتنے میں بارش ہوئی اور وہ دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں ہری بھری اور تروتازہ ہوگئی اور اس میں ہر قسم کی سرسبزی اور شادابی آگئی اور جگہ جگہ پانی کے چشمے پھوٹنے لگے، گویا مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ یہ مضمون سورة حج کی آیت (5، 6) میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، وہاں اس کی تین حکمتیں بیان ہوئی ہیں اور دیکھیے سورة روم (50) اور سورة یٰسٓ (33، 34)۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ : اس سے وہ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ جو مالک زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندگی عطا فرما سکتا ہے، وہ انسانوں کو بھی ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرسکتا ہے، اس کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں۔ سننے سے مراد انصاف اور غور سے سننا ہے، کیونکہ جو دل سے نہ سنے سمجھو بہرا ہے، جسے سنائی نہیں دیتا، فرمایا : (لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ) [ الأعراف : 179 ] ”ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔“
Top