Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 47
فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَضْحَكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : وہ لایا ان کے پاس بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیات ۔ نشانیاں اِذَا هُمْ : تب وہ مِّنْهَا : ان پر۔ سے يَضْحَكُوْنَ : ہنستے تھے
پس جب وہ ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس آیا تو اس کا مذاق اڑانے لگے
موسیٰ (علیہ السلام) نے جب ان کے سامنے نشانیاں پیش کیں تو وہ مذاق اڑانے لگے 47 ؎ ان نشانات میں سے دو نشانات کا ذکر تقریباً ہر جگہ بہت شرح و بسط سے کیا گینا ہے ایک کو ” عصا “ اور دوسرے کو ” ید بیضا “ کا نام دیا گیا ہے اور یہ دونوں نشانات ایسے نشانات تھے جنہوں نے فرعون اور اس کی پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور انجام کار وہ اپنی ہلاکت کو پہنچ گیا اور بلاشبہ ان دونوں نشانات نے روز روشن کی طرح واضح کردیا کہ فرعون جو کچھ ظلم و زیادتیاں قوم بنی اسرائیل کے ساتھ کر رہا ہے اس کا اس کو کوئی حق نہیں ہے۔ فرعون نے اپنی حکومت میں سے بڑے بڑے ماہرین مناظرین وساحرین اکٹھے کیے تاکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ان دونوں نشانیوں کا وضاحت سے جواب دیں اس کے لیے باقاعدہ دن مقرر کرکے فریقین میدان میں اترے لیکن زیادہ دیر نہ لگی تھی کہ فرعون کے لائے ہوئے تمام مناظرین و ساحرین اپنی بار تسلیم کرگئے اور فرعون کی جگہ انہوں نے اللہ رب العالمین کو رب مان لیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل و نشانات کی تصدیق کردی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس کی وضاحت گزشتہ مقامات پر دیکھی جاسکتی ہے جن مقامات کی طرف ہم نے اوپر اشارہ دے دیا ہے اور علاوہ ازیں سات مزید نشانات کا ذکر عزوۃ الوثقی جلد سوم میں سورة الاعراف کی آیت 130 سے 133 تک مل جائے گا وہاں سے ملاحظہ کریں۔ حق تو یہ تاکہ جب انہوں نے یکے بعد دیگرے بہت سے نشانات دیکھ لیے تھے اور خصوصاً اپنے مناظرین وساحرین کی شکست کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا تو وہ اس حقیقت کو حقیقت تسلیم کرلیتے لیکن ستیاناس اس دولت و ثروت کا کہ اس کا نشہ بھی جس کو چڑھ جاتا ہے اتنی جلدی اترنے کا نام نہیں لیتا انہوں نے ان نشانات کو ہنسی اور مذاق میں ڈال دیا اور کہ تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا کہ واقعی موسیٰ ایک بہت بڑا مناظروجادوگر ہے اور واقعی ہتھیلی پر سوسوں جما سکتا ہے۔ کسی قوم میں جب بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو وہ بگڑتے بگڑے بہت بگڑ جاتی ہے جیسے آج کل مجموعی طور پر قوم مسلم کا حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب پر عذاب آتا چلا جارہا ہے لیکن ہمارا بگاڑ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اس وقت اسلامی ممالک کو گنتی کے لحاظ سے گن لو ، رقبہ کے لحاظ سے اکٹھا کرلو اور آبادی کے لحاظ ان کی آبادی پر غور کر دیکھو ہر لحاظ سے دوسری ساری اقوام کے مقابلہ میں یہ قوم زیادہ ہے اور ایک ایک کے مقابلہ میں بہرحال کئی گناہ زیادہ ہے اور اگر قدرتی وسائل کے لحاظ سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو وہ بھی مسلمانوں کے پاس زیادہ ہیں لیکن غیر مسلموں کی ریشہ دوانیوں نے ہمارے حکمرانوں کو مت ایسی ما ردی ہے کہ وہ اس عذاب الٰہی کو ہنسی اور مذاق میں ٹالتے چلے جا رہے ہیں لیکن یہ ہنسی اور مذاق کسی کو نظر آرہا ہے ؟ کوئی ہے جو اس معاملہ میں متفکر ہے کہ آنے والے کل میں ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور پھر تعجب پر تعجب یہ ہے کہ جوں جوں عذاب قریب سے قریب تر ہوتا چلا جارہا ہے ہم مسلسل یہ نعرہ بلند کیے جا رہے ہیں کہ ” ہنوز دلی دور است “ یاد رہے کہ قوموں کے بگاڑ اور سنوارنے کے لیے سالوں اور برسوں نہیں صدیاں درکار ہوتی ہیں اور ان صدیوں میں کئی کئی نسلیں گزر جاتی ہیں اور ہر نسل کے لوگ اپنے گزشتہ لوگوں کے حالات کی طرف دیکھتے چلے آئے ہیں آنے والے حالات کی طرف بہت کم لوگوں کا دھیان جاتا ہے۔ اس وقت ہم قوم مسلم ایک طرح کے عذاب میں نہیں کئی ایک طرح کے عذابوں میں گھرچکے ہیں اور ہر ایک عذاب اپنے پہلے عذاب سے شدید تر ہے اور کسی وقت بھی یہ عذاب ہم کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ ہم کو قوم فرعون پر تعجب ہے کہ انہوں نے ان نشانات الٰہی کا کیونکر اور کیسے مذاق اڑایا تھا تو ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب کوئی قوم کسی عذاب الٰہی کی پروانہ کرے اور اس کو عذاب نہ سمجھے بلکہ اس فقرہ میں ٹال دے کہ ” ایسا ہوتا ہی آیا ہے یہ کام ، یہ بات کوئی نئی نہیں ہے “ تو اس کو مذاق کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کا بیان اس طرح کیا ہے کہ ہم بگڑنے والوں پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان کو دیکھ کر سنبھل جائیں اور اپنی اصلاح کرلیں لیکن جب وہ ان کو ٹالنے لگ جاتے ہیں اور مسلسل ٹالتے ہی چلے جاتے ہیں تو انجام کار ایک روزہ وہ بڑا عذاب بھی آجاتا ہے جو مکمل طور پر ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے پھر اس وقت وہ روتے اور چیختے چلاتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اس چیخنے کا وقت نکل چکا ہوتا ہے اس لیے ان کو اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ گولی لگ جانے کے بعد یہ فقرہ کہ اللہ خیرکرے یا یہ کہ خدا کرے جھوٹ ہی ہو کیا حیثیت رکھتا ہے ؟
Top