Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ :”وَلَا تَــقْفُ“ ”قَفَا یَقْفُوْ“ (ن) سے نہی کا صیغہ ہے، جس کا معنی پیچھے چلنا ہے۔ ”قَفَوْتُ أَثَرَ فُلاَنٍ“ ”میں فلاں کے نقش قدم پر چلا۔“ ”قَفَا“ گردن کے پچھلے حصے (گدی) کو کہتے ہیں، قافیہ ہر شعر کے آخر میں آنے والا لفظ۔ رسول اللہ ﷺ کا ایک مبارک نام ”اَلْمُقَفِّيْ“ بھی ہے، یعنی سب سے پیچھے آنے والا۔ (مستدرک حاکم : 4185) یعنی جس قول یا فعل کے درست ہونے کا علم یعنی یقین نہ ہو اس کا پیچھا مت کرو، مطلب یہ کہ نہ خود اس پر عمل کرو نہ آگے کسی کو بتاؤ۔ علم وہ ہے جس کا یقین ہو، صرف گمان کے پیچھے چلنا منع ہے، کیونکہ گمان علم نہیں ہوتا، فرمایا : (وَمَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ) [ النجم : 28 ] ”حالانکہ انھیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں۔“ ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ) [ بخاری، الأدب، باب : (یأیھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن۔۔) : 6066 ] ”گمان سے بچو، یقیناً گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔“ اسی طرح سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرنا بھی منع ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (کَفَی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) [ مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : 5، عن أبي ہریرہ ؓ ] ”آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر وہ بات آگے بیان کر دے جو اس نے سنی ہو۔“ علاوہ ازیں جھوٹی گواہی، کوئی بھی تہمت، جھوٹا خواب بیان کرنا، رسول اللہ ﷺ کی حدیث اس کے صحیح ہونے کا علم ہونے کے بغیر بیان کرنا، قرآن و حدیث کی موجودگی میں کسی کی شخصی رائے یا قیاس پر عمل کرنا (تقلید کرنا) یہ سب چیزیں اس میں شامل ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب سے منع فرمایا ہے۔ rnۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ۔۔ : یہاں ”كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا“ سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس کے کان، آنکھیں اور دل ہیں، یعنی آدمی سے ان تینوں چیزوں میں سے ہر ایک کے بارے میں سوال کیا جانے والا ہے کہ تونے ان اعضا کو کہاں استعمال کیا ہے ؟ جس چیز کا علم نہیں تھا اس کا پیچھا کرنے میں اللہ کے عطا کردہ اعضا کیوں استعمال کیے ؟ (دیکھیے حجر : 92، 93) اور ”كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا“ کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کان، آنکھیں اور دل میں سے ہر ایک سے خود اس کے متعلق سوال ہونے والا ہے کہ بتاؤ تمہیں اس شخص نے کہاں اور کیسے استعمال کیا۔ دیکھیے سورة یس (65) اور حم السجدہ (19 تا 23) بہرحال قرآن کی آیات میں یہ دونوں مفہوم موجود ہیں، دونوں صورتوں میں قیامت کے دن کی اس ہولناک پیشی سے ڈرایا گیا ہے۔ اس آیت کی ہم معنی یہ آیات بھی ملاحظہ فرمائیں سورة اعراف (33) اور سورة بقرہ (168، 169)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چند الفاظ اسلام کے مکمل منہج کی ترجمانی کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ اس بات کی اپنی حد تک پوری تحقیق کرلے کہ میری زبان جو بات کہہ رہی ہے، یا واقعہ بیان کر رہی ہے، یا روایت نقل کر رہی ہے، یا میری عقل جو فیصلہ کر رہی ہے، یا جو کچھ میں نے قطعی طے کیا، یا جو کام میں کرنے جا رہا ہوں اس کا مجھے پورا علم ہے اور میں اس کے نتائج کو پوری طرح جانتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی قرآن نے بات کا رخ تکبر سے ممانعت کی طرف موڑ دیا، کیونکہ یہ انسان کے اپنی حقیقت سے حد سے زیادہ لا علم ہونے کی دلیل ہے۔
Top