Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 109
وَ مَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۚ
وَ : اور مَآ اَسْئَلُكُمْ : میں نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مِنْ : کوئی اَجْرٍ : جر اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا اجر اِلَّا : مگر (صرف) عَلٰي : پر رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین
اور میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، میری اجرت تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔
وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ : اپنی رسالت کے ثبوت کے لیے دوسری چیز یہ پیش فرمائی کہ دین داری اور روحانیت کے دعوے داروں کا مقصود عموماً اپنی گدی جمانا، مال و زر جمع کرنا اور سرداری حاصل کرنا ہوتا ہے۔ خانقاہوں اور راہبوں کی کٹیاؤں کے تقدس کے پیچھے عموماً بدترین ہوس زر ہی چھپی ہوتی ہے، مگر مجھے اللہ کا پیغام پہنچانے میں نہ تم سے کسی مزدوری یا دنیاوی منفعت کی خواہش ہے نہ تم سے اس کا کوئی مطالبہ۔ ایسے بےغرض خیر خواہ کی بھی بات نہ مانو تو تم سے بڑا بدنصیب کون ہوگا۔ اس بات کا نوح ؑ نے خاص طور پر اس لیے بھی ذکر کیا کہ ان کی قوم نے ان پر بہتان باندھا تھا کہ وہ رسالت کے ذریعے سے اپنی قوم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، سورة مؤمنون میں ہے : (مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ) [ المؤمنون : 24 ] ”یہ نہیں ہے مگر تمہارے جیسا ایک بشر، جو چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے۔“ نوح ؑ کی طرح ہمارے پیغمبر ﷺ کی پوری زندگی بھی اس کی شاہد عدل ہے، آپ ﷺ نے بھی اپنے پیچھے نہ کوئی دینار چھوڑا، نہ درہم اور نہ کوئی اور چیز، جو کچھ تھا صدقہ کردیا۔ اللہ کے پیغمبر ایسے ہی بےلوث ہوتے ہیں اور وہ اس کا اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : اس میں قیامت کے عقیدے کی دعوت بھی ہے کہ میری تگ و دو اور محنت کی اجرت صرف اور صرف رب العالمین کے ذمے ہے اور ظاہر ہے کہ وہ قیامت کے دن ہی پوری پوری ملے گی۔
Top