Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 29
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّیْۤ اُلْقِیَ اِلَیَّ كِتٰبٌ كَرِیْمٌ
قَالَتْ : وہ کہنے لگی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اِنِّىْٓ اُلْقِيَ : بیشک میری طرف ڈالا گیا اِلَيَّ : میری طرف كِتٰبٌ : خط كَرِيْمٌ : باوقعت
اس (ملکہ) نے کہا اے سردارو ! بیشک میری طرف ایک عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔
قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ۔۔ : چناچہ اس نے اپنی سلطنت کے سرداروں اور مشیروں کو جمع کیا اور انھیں مخاطب کرکے کہا : ”اے سردارو ! میری طرف ایک بہت عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔“ ملکہ نے اس خط کو بہت عزت والا اس لیے کہا کہ ایک تو وہ عجیب و غریب اور غیر معمولی طریقے سے آیا تھا، کسی سفارتی وفد کے بجائے ایک پرندے نے اسے لا پھینکا تھا۔ دوسرے وہ سلیمان جیسے باشکوہ بادشاہ کی طرف سے تھا جو شام و فلسطین اور اردگرد کے علاقوں کے فرماں روا تھے۔ تیسرے اس کی ابتدا بتوں یا دیوتاؤں کے نام کے بجائے اللہ رحمٰن ورحیم کے نام سے تھی، پھر اتنا مختصر اور جامع کہ لکھنے والے کی پوری مراد چند لفظوں میں مکمل ادا ہو رہی تھی اور اس نے نہایت بارعب اور پُر ہیبت لہجے میں صاف صاف حکم دیا تھا کہ سرکشی چھوڑ کر اطاعت کرو اور تابع فرمان یا مسلمان بن کر اس کے سامنے حاضر ہوجاؤ۔ 3 اس خط سے خط لکھنے کے کئی آداب معلوم ہو رہے ہیں، ایک یہ کہ خط لکھنے والے کو خط کے شروع میں اپنا تعارف کرانا ضروری ہے کہ یہ خط کس کی طرف سے ہے۔ دوسرا یہ کہ خط کی ابتدا ”بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ“ سے ہونی چاہیے۔ تیسرا یہ کہ خط مختصر، جامع اور واضح ہونا چاہیے۔ قرآن میں مذکور الفاظ کے مطابق خط لکھنے والے کا نام ”بِسْمِ اللّٰهِ“ سے پہلے ہے، مگر مفسرین فرماتے ہیں کہ ملکہ چونکہ اپنے الفاظ میں خط کا تذکرہ کر رہی تھی، اس لیے اس نے ”مِنْ سُلَيْمٰنَ“ کا ذکر پہلے کردیا، ورنہ ”بِسْمِ اللّٰهِ“ اس سے پہلے ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے خطوط سے واضح ہے کہ ان میں ابتدا اس طرح ہوتی ہے : (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ اِلٰی ھِرَقْلَ عَظِیْمِ الرُّوْمِ۔۔) [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي : 7 ] ”وَاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ“ کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ ”میرے پاس تابع فرمان بن کر آجاؤ۔“ یہ شاہی جلال کا آئینہ دار ہے، دوسرا یہ کہ مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ، یہ پیغمبرانہ شان کا اظہار ہے۔ سلیمان ؑ میں دونوں صفات موجود تھیں، اس لیے مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان بن کر میرے پاس حاضر ہوجاؤ، اگر اسلام قبول نہیں تو تابع فرمان تمہیں ہر حال میں ہونا پڑے گا۔ فرمایا : (حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ) [ التوبۃ : 29 ] ”یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔“
Top