Ruh-ul-Quran - An-Naml : 29
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّیْۤ اُلْقِیَ اِلَیَّ كِتٰبٌ كَرِیْمٌ
قَالَتْ : وہ کہنے لگی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اِنِّىْٓ اُلْقِيَ : بیشک میری طرف ڈالا گیا اِلَيَّ : میری طرف كِتٰبٌ : خط كَرِيْمٌ : باوقعت
ملکہ سبا نے کہا، اے اہل دربار ! ایک گرامی نامہ میرے پاس ڈالا گیا ہے
قَالَتْ یٰٓـاَیُّھَا الْمَلَؤُا اِنِّیْٓ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیْمٌ۔ اِنَّـہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّـہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ (النمل : 29 تا 31) (ملکہ سبا نے کہا، اے اہل دربار ! ایک گرامی نامہ میرے پاس ڈالا گیا ہے۔ وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تم لوگ میرے مقابل میں سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔ ) مکتوبِ گرامی سے متعلق چند اہم امور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مکتوبِ گرامی کو کس طرح ملکہ سبا کے دربار تک پہنچایا، کہا جاتا ہے کہ ملکہ عمائدینِ سلطنت کے ساتھ دربار میں تشریف فرما تھی کہ ہد ہد نے ان کے سر پر پہنچ کر پھڑپھڑانا شروع کردیا۔ ملکہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو ہدہد نے وہ مکتوب ملکہ کے سامنے ڈال دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکہ محو استراحت تھی کہ ہدہد نے نہایت خاموشی سے خط اس کے اوپر رکھ دیا۔ خط کے پہنچنے کی کیفیت کچھ بھی ہو، قرآن کریم کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ کے اہل دربار میں سے کسی نے بھی اچانک اس طرح خط کے ڈالے جانے پر تعجب کا اظہار نہیں کیا۔ ملکہ نے بھی اسے معمول کی بات سمجھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جانوروں کے ذریعے نامہ بری اور خطوط کا آنا ایک معمول کی بات تھی۔ اس دور کے بادشاہوں کے پاس تیز رفتار پیغام رسانی کا یہی ایک محفوظ ذریعہ تھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملکہ نے اس خط کا ذکر کرتے ہوئے اسے کتاب کریم، یعنی معزز خط کے نام کی حیثیت سے پیش کیا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ ملکہ اور اس کے درباریوں کے دلوں میں پہلے سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عزت و عظمت موجود تھی۔ وہ اجمالی حد تک سہی، لیکن فی الجملہ آپ ( علیہ السلام) کے نام اور آپ ( علیہ السلام) کے کارناموں سے باخبر تھی۔ تیسری بات اس خط کے سلسلے میں جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سلاطین و امراء کے خطوط و فرامین کا طریقہ یہ رہا ہے کہ خط کے آغاز میں مرسل اور مرسل الیہ کا نام لکھا جاتا تھا۔ اور آج بھی ہمارے علماء اور بزرگانِ دین کا یہی طریقہ ہے، لیکن اس خط میں مرسل یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام تو موجود ہے، مرسل الیہ کا نام موجود نہیں۔ اس سے یہ خیال گزرتا ہے کہ شاید یہ پورا خط نہ ہو بلکہ ملکہ نے اس کا خلاصہ اپنے اہل دربار کے سامنے پیش کیا ہو۔ لیکن اسے حتمی بات نہیں کہا جاسکتا اس لیے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک ملکہ کے نام خط لکھ رہے تھے آپ ( علیہ السلام) کی شرم و حیاء کا تقاضا یہی تھا کہ آپ ( علیہ السلام) بجائے اس کا نام لکھنے اور انفرادی طور پر اسے خطاب کرنے کے پوری قوم کو خطاب کریں، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ آپ ( علیہ السلام) صرف ایک بادشاہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خط میں مختصر ہونے کے باوجود دعوتی رنگ پوری طرح جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی لیے آپ ( علیہ السلام) نے اپنے نام کے فوراً بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر یہ واضح کردیا کہ ایک بادشاہ ہونے کی حیثیت سے میری جو بھی اہمیت ہے وہ اپنی جگہ ہے، لیکن اصل میری شناخت یہ ہے کہ میں اس اللہ کا پیغمبر اور بندہ ہوں جو رحمن اور رحیم ہے۔ اور اس اللہ کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ میں تمہیں اس کے عذاب سے بچانے کے لیے اسلام کی دعوت دوں۔ یہ خط بےحد مختصر ہے، لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں قدیم زمانے کے حکمران مختصر خط لکھنا ہی پسند کرتے تھے، لمبی بات کہنا اور بات کو پھیلانا آداب حکومت کے خلاف سمجھتے تھے۔ خود آنحضرت ﷺ کے مکتوباتِ گرامی اعجاز اور ایجاز کے بہترین نمونہ ہیں۔ ان کے خطوط میں خیرالکلام ماقل ودل کا حسن پایا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مکتوبِ گرامی سے بھی یہی حسن مترشح ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے خط کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرکے ایک تو یہ تأثر دیا ہے کہ اس کائنات کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اسی کو حکمرانی زیب دیتی ہے، دوسرے حکمرانوں کو وہ اپنی حکمرانی کا ذریعہ بنا کر ان کی آزمائش کرتا ہے کہ وہ کہاں تک اس امانت کا حق ادا کرتے ہیں، چونکہ وہ رحمن و رحیم ہے اس لیے گرفت اور سزا میں جلدی نہیں کرتا، بلکہ مہلت دیتا ہے۔ اپنے ایک جملے کے خط میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر فساد کا صرف ایک سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین کو غیر اللہ کی حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس فساد کو صلاح سے بدلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ زمین پر بسنے والے سب انسانوں کو آزادیِ رائے کا حق ملے، وہ ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہو کر اللہ تعالیٰ اور اپنے تعلق اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کی حاکمیت کے بارے میں غور و فکر کریں اور جن نام نہاد حکمرانوں نے انھیں اپنی بندگی کی گرفت میں لے رکھا ہے اس طلسم کو توڑ دیا جائے تاکہ وہ آزادی اور آسانی سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو قبول کرکے اس کے سایہ عدل میں داخل ہوجائیں۔ تمہارے لیے بھی یہی راستہ ہے تمہیں اسلام لانے پر مجبور تو نہیں کیا جائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کی زمین پر خدا کے قانون کے نفاذ کی بجائے تم نے اپنا قانون نافذ کر رکھا ہے، اسی قانون کی بالادستی خدا سے بغاوت اور فساد فی الارض ہے۔ اس لیے تم اپنی حاکمیت کو چھوڑ کر اس زمین کو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے لیے واگزار کردو، اور میرے پاس مطیع و فرمانبردار بن کر حاضر ہوجاؤ۔ یعنی اپنی سیاسی خودمختاری سے دستبردار ہو کر اسلامی نظام کی ماتحتی قبول کرلو۔
Top