Al-Qurtubi - An-Naml : 29
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّیْۤ اُلْقِیَ اِلَیَّ كِتٰبٌ كَرِیْمٌ
قَالَتْ : وہ کہنے لگی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اِنِّىْٓ اُلْقِيَ : بیشک میری طرف ڈالا گیا اِلَيَّ : میری طرف كِتٰبٌ : خط كَرِيْمٌ : باوقعت
(ملکہ نے) کہا دربار والو ! میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے
( قالت یایھا۔۔۔۔۔۔ ) اس کے چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ قالت یا تھا الملواء کلام میں حذف سے مراد ہے فذھب فالقاہ الیھم فسمعھا وھی تقول یایھا الملاء وہ گیا اس نے خط ان پر پھینکا اس نے ملکہ بلقیس کو یہ کہتے ہوئے سنا : اے قوم کے سردارو ! پھر کتاب کی صف کریم سے لگائی کیونکہ وہ خط ایسی ذات کی جانب سے تھا جو عظیم تھی یہ عظمت ملکہ بلقیس کے نفس میں تھی یا ان سرداروں کے نفوس میں تھی۔ ملکہ بلقیس نے خط کی عظیم سے صفت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تکریم کے لیے ذکر کی تھی، یہ ابن زید کا قول ہے یا اس نے یہ اشارہ کیا کہ اس پر مہر لگی ہوئی ہے تو خط کی کرامت اس کی مہر ہے، رسول اللہ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم تھا حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہر وہ کلام جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ ہو تو وہ دم بریدہ ہوتی ہے “ (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے : کیونکہ اس کا آغاز اپنی ذات سے تھا یہ طریقہ جلیل القدر لوگ ہی کرتے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے عبد الملک بن مروان کی طرف خط لکھا جس میں وہ مروان کی بیعت کررہے تھے۔ من عبد اللہ لعبد الملک بن مروان امیر المومنین، یہ خط عبد اللہ کی جانب سے عبد الملک بن مروان کے لیے ہے جو امیر المومنین ہے میں تیرے لیے سمع وطاعت کا اقرار کرتا ہوں جس طرح میں طاقت رکھوں گا، میرے بیٹوں نے بھی اس بارے میں تیرے لیے اقرار کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس نے وہم کیا کہ یہ خط آسمان سے آیا ہے کیونکہ خط پہنچانے والا پرندہ تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کریم کا معنی حسن ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ومقام کریم۔ ( الشعرائ) یعنی مجلس حسن۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس نے خط کی یہ صفت اس لیے ذکر کی کیونکہ اس میں نرم گفتگو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت کی نصیحت تھی اس میں شفقت اور لطف و مہربانی تھی اس میں سب ولعن وغیرہ نہیں تھا۔ نہ وہ کوئی ایسی چیز تھی جو نفس میں تغیر پیدا کرے نہ وہ درجہ سے گری ہوئی تھی اور نہ ہی اس میں پیچیدگی تھی۔ جس طرح رسولوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھتے جو اس نے اپنے نبی سے فرمایا : اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل : 125) اور اللہ تعالیٰ کے فرمان جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا : فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر کر او یخشی۔ ( طہٰ ) تمام وجوہ اچھی ہیں اور یہ ان سب سے بہترین ہے یہ روایت بیان کی گئی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے قبل کسی نے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔ عبد اللہ کی قرأت میں ہے وان من سلیمان وائو زائد ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ کتب میں کریم کی صفت حد درجہ کا وصف ہے کیا تو اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں دیکھتا انہ القرآن کریم 1 ؎۔ سنن ابن ماجہ، باب خطبۃ النکاح، حدیث نمبر 1883، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ اہل زمان کتاب کی صفت، خطیر، اثیر اور مبرود لگاتے ہیں۔ اگر وہ بادشاہ کا خط ہو تو وہ عزیز کہتے ہیں اور غفلت کے طور پر الکریم کو ساقط کردیا۔ یہ خصلت کے اعتبار سے افضل ہے جہاں تک العزیز کے ساتھ صفت کا معاملہ ہے تو اس کے ساتھ قرآن کی صفت ذکر کی گئی ہے۔ لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ (فصلت : 42) یہ اس کی عزت ہے یہ کسی اور کے لیے نہیں اپنے مکتوبات میں اس سے اجتناب کرو اس کی جگہ العالی کا لفظ رکھو، مقصود، ولایت کا حق پورا کرنے کے لیے اور دیانت کا احاطہ کرنے کے لیے ہے، یہ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا۔ مسئلہ نمبر 3 :۔ متقدمین کا طریقہ تھا جب وہ خط لکھتے تو اپنی ذاتوں سے شروع کرتے۔ من فلان الی فلاں۔ اس کے متعلق آثار آئے ہیں۔ ربیع بن انس نے روایت کی ہے کہا : نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر کوئی زیادہ حرمت والا نہیں۔ جب وہ مکتوب لکھتے تو اپنی ذات سے شروع کرتے۔ ابن سیرین نے کہا : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اہل فارس جب خط لکھتے ہیں تو آغاز اپنے سرداروں سے کرتے ہیں آدمی اپنی ذات سے شروع کرے “۔ ابو اللیث نے اپنی کتاب ” البستان “ میں کہا : اگر اس سے خط کو شروع کیا جس کی طرف خط لکھا جا رہا ہے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ امت کا اسی پر اتفاق ہے کیونکہ انہوں نے یہ طریقہ کسی مصلحت کی وجہ سے اپنا یا جو مصلحت انہوں نے اس طریقہ میں دیکھی یا اس سے جو طریقہ تھا وہ منسوخ ہوگیا۔ ہمارے اس زمانے میں اچھا یہ ہے کہ خط مکتوب الیہ سے شروع کیا جائے پھر اپنا ذکر کرے، کیونکہ اپنی ذات سے خط کو شروع کرنا یہ مکتوب الیہ کو حقیر جاننے اور اپنے آپ کو بڑا جاننے پر دال ہے مگر یہ لکھا جائے الی عبد من عبیدہ او غلام من غلمانہ۔ غلاموں میں سے ایک غلام کی طرف۔ مسئلہ نمبر 4 :۔ جب انسان پر کوئی خط وارد ہو جس میں سلام وغیرہ ہو تو اس کو جواب دینا چاہیے کیونکہ مکتوب غائب سے اس طرح ہے جس طرح حاضر سے سلام ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جس طرح سلام کا جواب دینا واجب ہوتا ہے اسی طرح مکتوب کا جواب دینا بھی واجب ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 :۔ مکتوبات اور رسائل کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر علماء کا اتفاق ہے اسی طرح ان کے اختتام پر بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر اتفاق ہے کیونکہ یہ شک سے بعید ہے یہی طریقہ ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اسی طرح اثر واقع ہوا ہے۔ جس مکتوب پر مہر نہ ہو وہ اغلف ( جس کو نہ سمجھا جائے) ہے۔ حدیث میں ہے کرام الکتب ختمہ مکتوب کی کرامت اس پر مہر ہے۔ ایک ادیب نے کہا : جو ابن مقفع ہے : جس نے اپنے بھائی کو خط لکھا اور اس پر مہر نہ لگائی تو اس نے اس کی حقارت بیان کی، کیونکہ مہر لگانا ہی اس کا افتتاح ہے۔ حضرت انس ؓ نے کہا : جب نبی کریم ﷺ نے ارادہ کیا کہ عجمیوں کو خط لکھیں تو آپ ﷺ سے عرض کی گئی : یہ وہی خط قبول کرتے ہیں جس پر مہر ہو، آپ نے مہربنوائی اور اس کے نگینہ پر یہ نقش لکھوایا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ گویا میں اس کی چمک اور سفیدی آپ کی ہتھیلی میں دیکھتا ہوں (1) 1 ؎۔ صحیح بخاری، کتاب اللیاس، باب نقش الخاتم، جلد 2، صفحہ 872 مسئلہ نمبر 6 :۔ انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم دونوں جگہ ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے اور دونوں سے کلام شروع ہو رہا ہے۔ فراء نے دونوں میں ان ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ محل رفع میں ہے یہ الکتاب سے بدل ہے القی الی انہ من سلیمان یہ بھی جائز ہے کہ حرف جار کے حذف کے ساتھ محل نصب میں ہو یعنی لانہ من سلیمان ولانہ گویا اس کی کرامت کی علت یہ بیان کی کہ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اس کے شرع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے اشہب عقیلی اور محمد بن سمیقع نے پڑھا : الا تغلوا غین معجم کے ساتھ، وہب بن منبہ سے مروی ہے یہ غلا یغلر سے مشتق ہے جب وہ حد سے تجاوز کرے اور تکبر کرے۔ یہ جماعت کی قرأت کے معنی کی طرف راجع ہے۔
Top