Al-Quran-al-Kareem - Faatir : 25
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : وہ تمہیں جھٹلائیں فَقَدْ كَذَّبَ : تو تحقیق جھٹلایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ : ان سے اگلے جَآءَتْهُمْ : آئے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلائل کے ساتھ وَبِالزُّبُرِ : اور صحیفوں کے ساتھ وَبِالْكِتٰبِ : اور کتابوں کے ساتھ الْمُنِيْرِ : روشن
اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں توبلا شبہ ان لوگوں نے (بھی) جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے، ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ اور صحیفوں کے ساتھ اور روشنی کرنے والی کتاب کے ساتھ آئے۔
وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : اس میں رسول اللہ ﷺ کو مزید تسلی دی ہے۔ یعنی اگر یہ لوگ تجھے جھٹلا دیں تو غم یا افسوس کی ضرورت نہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، نہ آپ پہلے رسول ہیں جسے جھٹلایا گیا ہو، بلکہ آپ سے پہلے لوگوں کے پاس بھی کئی رسول آئے اور آپ سے پہلے لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بالْبَيِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ : یہاں ایک سوال ہے کہ ”اَلْکِتَابُ الْمُنِیْرُ“ ”اَلزُّبُرُ“ میں بھی داخل ہے اور ”اَلْبَیِّنَاتُ“ میں بھی، تو پھر عطف ڈال کر اسے الگ کیوں ذکر کیا گیا ؟ بعض اہل علم نے اس کا جواب دیا کہ تینوں الفاظ اگرچہ ایک چیز پر صادق آتے ہیں مگر عطف اس لیے ڈالا گیا ہے کہ تینوں سے الگ الگ مفہوم مراد لیا گیا ہے، چناچہ ”اَلْبَیِّنَاتُ“ سے مراد معجزات ہیں، ”اَلزُّبُرُ“ سے مراد وہ کتابیں ہیں جو وعظ و نصیحت پر مشتمل ہیں اور ”اَلْکِتَابُ الْمُنِیْرُ“ سے مراد وہ کتابیں ہیں جن میں شریعت کے احکام تھے، جیسا کہ تورات وغیرہ۔ (شوکانی)
Top