Anwar-ul-Bayan - Faatir : 25
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : وہ تمہیں جھٹلائیں فَقَدْ كَذَّبَ : تو تحقیق جھٹلایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ : ان سے اگلے جَآءَتْهُمْ : آئے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلائل کے ساتھ وَبِالزُّبُرِ : اور صحیفوں کے ساتھ وَبِالْكِتٰبِ : اور کتابوں کے ساتھ الْمُنِيْرِ : روشن
اور اگر یہ لوگ تمہاری تکذیب کریں تو جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی تکذیب کرچکے ہیں ان کے پاس ان کے پیغمبر کی نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتابیں لے لے کر آتے رہے
(35:25) ان یکذبوک۔ میں ان شرطیہ ہے۔ یکذبوا۔ اصل میں یکذبون تھا۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب بوجہ عمل ان نون اعرابی گرگیا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ یہاں خطاب رسول کریم ﷺ سے ہے۔ اور ضمیر فاعل کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ اگر یہ لوگ (کفار مکہ) آپ کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کے بعد جواب شرط محذوف ہے۔ ای فاصبر کما صبرا الانبیاء من قبلک۔ آپ صبر کریں جس طرح آپ سے پہلے انبیا (علیہم السلام ) نے صبر کیا۔ فقد کذب الذین من قبلہم۔ میں الذین من قبلہم فاعل ہے کذب کا۔ اور قبلہم (مضاف مضاف الیہ) میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ یعنی جو لوگ ان (کفار مکہ سے پہلے تھے وہ بھی تکذیب کرچکے ہیں (اپنے وقت کے پیغمبروں کی) ۔ یہ جملہ صبر کرنے پر دلیل کے طور پر لایا گیا ہے ! جاء تہم رسلہم بالبینت و بالزبر والکتب المنیر۔ یہ جملہ سابقہ کا حال ہے۔ حالانکہ ان کے پاس رسول روشن دلیلیں، آسمانی صحیفے اور نورانی کتاب لے کر آئے تھے۔ البینت۔ کھلی کھلی اور روشن دلیلیں ۔ بینۃ کی جمع۔ الزبر۔ زبور کی جمع کتابیں۔ اور اق۔ آسمانی صحیفے ۔ الکتاب المنیر۔ روشن کتاب۔ جیسے توریت ، انجیل زبور۔ یعنی ہر پیغمبر الگ الگ معجزہ اور کتاب کے ساتھ آیا۔ نکیر۔ اصل میں نکیری تھا۔ (پس کیسا ہوا) میرا عذاب۔ الم تر۔ میں ہمزہ استفہام کا ہے لم تر۔ مضارع نفی حجد بلم صیغہ واحد مذکر حاضر تر۔ اصل میں تری تھا۔ لم کے آنے سے آخر میں حرف علت ساقط ہوگیا۔ رؤیۃ مصدر (باب فتح) دیکھنا۔ الم تر۔ کیا تو نے نہیں دیکھا۔ کیا تمہیں نہیں معلوم۔ یہاں خطاب عام ہے۔ یعنی ہر فرد بشر سے ہے۔ فاخرجنا بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ماء کی طرف راجع ہے۔ اخرجنا۔ ہم نے نکالا۔ ہم نے پیدا کیا۔ یہاں التفات ضمائر ہے۔ صیغہ غائب سے صیغہ متکلم کی طرف التفات۔ کسی کام کو بکمال قدرت و حکمت کرنے کے اظہار کے لئے ہے۔ پھر ہم نے اس پانی کے ذریعے سے پیدا کئے۔۔ ثمرات مختلفا الوانھا۔ ثمرات مفعول ہے اخرجنا کا۔ مختلفا اسم فاعل۔ واحد مذکر حاضر۔ بحالت نصب۔ مختلف ۔ جدا جدا ۔ طرح طرح گوناگوں۔ بو قلموں ۔ اختلاف مصدر (باب افتعال) الوانھا۔ الوان۔ لون کی جمع ہے ھا ضمیر واحد مؤنث غائب (جس کا مرجع ثمرات ہے) مضاف الیہ۔ مختلفا الوانھا دونوں مل کر ثمرات کی صفت ہیں۔ ثمرات مختلفا الوانھا۔ پھل جو اپنی اجناس میں مختلف ہیں۔ مثلاً انار، سیب انگور زیتون وغیرہ یا پھل جو اپنی رنگت میں مختلف ہیں۔ مثلاً زرد، سبز، سرخ وغیرہ۔ اور یہ چند روچند تنوع خالق حقیقی کی کمال صناعی و حکمت کا مظہر ہے۔ ومن الجبال۔ ای ومن الجبال مکتلف الوانھا۔ اور (اسی طرح) پہاڑوں کے بھی مختلف رنگ ہیں۔ جدد۔ اس کے مختلف معانی آئے ہیں ! (1) یہ جدۃ کی جمع ہے جس کے معنی کھلے راستے کے ہیں۔ لہٰذا جدد بمعنی راستے گھاٹیاں۔ جادۃ (جواد جمع) بڑا رستہ ، شارع عام (2) ذات خطوط مختلفۃ الالوان۔ مختلف رنگوں کی دھاریوں والے۔ (3) جدد بمعنی قطع (ٹکڑے) قطعے، حصے، جددتہ میں نے اس کے ٹکڑے کر دئیے۔ ومن الجبال جدد۔ اور پہاڑوں کی (مختلف الالوان) گھاٹیاں۔ یا راستے۔ یا پہاڑوں کے مختلف قطعے یا حصے جو بیض (ابیض بیضاء سے صفت مشبہ کا صیغہ جمع مذکرومؤنث ہے) سفید ہیں اور حمر (احمر حمراء کی جمع ہے ) سرخ ہیں۔ اور غرابیب سود نہایت سیاہ رنگوں کے ہیں۔ غرابیب سود۔ غریب کی جمع ہے اور سود اسود (مذکر) سوداء (مؤنث) بمعنی سیاہ رنگ والا۔ یا سیاہ رنگ والی۔ کی جمع ہے بروزن افعل فعلا فعلن۔ موجودہ حالت میں (یعنی ترکیب غرابیب سود ) غرابیب سود کی صفت نہیں ہے۔ عربی میں کسی رنگ کی تاکیدی صفت کو موصوف سے پہلے ذکر نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا اس کی مختلف توضیحات کی گئی ہیں۔ (1) اصل میں یہ سود غرابیب تھا۔ سود موصوف غرابیب صفت۔ استعمال میں الٹ کر غرابیب سود کردیا گیا۔ اصغر فاقع (خالص زرد) کی طرح اسود غربیب کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر اسود کی تاکیدی صفت ذکر کرنی ہوتی ہے تو غربیب کو اسود کے بعد لاتے ہیں۔ (2) اصل میں سود غرابیب سود تھا۔ صفت سے قبل موکد کو مضمر (محذوف) رکھا گیا۔ صفت کے بعد سود موکد مضمر کی تفسیر ہے اور یہ زیادتی تاکید کے لئے کیا گیا ہے۔ اور مولانا ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں ! جلال الدین محلی نے کہا۔ اسود غربیب کثیر الاستعمال ہے۔ اور غربیب اسود کا استعمال کم ہے، میں کہتا ہوں۔ یہ قلیل الاستعمال اس وقت جب سیاہی کی مزید تاکید مقصود ہو۔ (3) موصوف مؤکد کو محذوف کرنے کی کوئی بات نہیں۔ ( جیسا کہ اوپر نمبر 2 میں مذکور ہوا) بلکہ یہ نوع کلام عربی میں التقدیم والتاخیر کہلاتی ہے لہٰذا غرابیب سود بمعنی سود غرابیب ہے نہایت سیاہ۔
Top