Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 67
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ یُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُیُوْخًا١ۚ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَ لِتَبْلُغُوْۤا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ : پھر نطفہ سے ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ : پھر لوتھڑے سے ثُمَّ : پھر يُخْرِجُكُمْ : تمہیں نکالتا ہے وہ طِفْلًا : بچہ سا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا : پھر تاکہ تم پہنچو اَشُدَّكُمْ : اپنی جوانی ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا : پھر تاکہ تم ہوجاؤ شُيُوْخًا ۚ : بوڑھے وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ يُّتَوَفّٰى : جو فوت ہوجاتا ہے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَلِتَبْلُغُوْٓا : اور تاکہ پہنچو اَجَلًا مُّسَمًّى : وقت مقررہ وَّلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
وہی ہے جس نے تمہیں کچھ مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر ایک جمے ہوئے خون سے، پھر وہ تمہیں ایک بچہ بنا کر نکالتا ہے، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ اور تم میں سے بعض وہ ہے جو اس سے پہلے قبض کرلیا جاتا ہے اور تاکہ تم ایک مقرر وقت کو پہنچ جاؤ اور تاکہ تم سمجھو۔
(1) ھو الذی خلقکم من تراب …: یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت قائم ہونے کی دلیل ہے۔ اس کی تفسیر سورة حج (5) اور سورة مومنون (12 تا 14) میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ البتہ یہاں چند الفاظ کی مخت صر تشریح کی جاتی ہے۔ (2) ثم لتبلغوا اشدکم“ اور ”ثم لتکونوا شیوخاً“ دونوں میں ”لام کی“ فعل محذوف کے متعلق ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہا ہے :”ثم یربیکم“ یعنی پھر وہ تمہاری پرورش کرتا رہتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ) یا ”ثم یبقیکم“ ہے، یعنی پھر وہ تمہیں باقی رکھتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ۔) (3) ومنکم فن یتوفی من قبل : یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے (اسقاط کی صورت میں) کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بوڑھا ہونے سے پہلے فوت کرلیا جاتا ہے۔ (4) ولیتلغوا اجلاً مسمیٰ : اس ”لتبلغوا“ کا تعلق پہلے ”لتبلغوا“ کے لئے مقدر فعل کے ساتھ نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لئے الگ فعل مقدر ماننا پڑے گا، مثلاً و فعل لکم ذلک لتبلغوا اجلاً مسمی“”اور اس نے تمہارے ساتھ یہ معاملہ اس لئے کیا ہے کہ تم متو کے اس وقت تک پہنچ جاؤ جو تم میں سے ہر ایک کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔“ یعنی کوئی علاقہ بننے تک کوئی مضغہ یا عظام بننے تک، کوئی ولادت تک ، کوئی لڑکپن تک، کوئی جوانی تک اور کوئی بڑھاپے تک پہنچ کر مرے۔ (ابن جزی) (5) ولعلکم تعقلون : یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی کے ان مختلف مراحل سے اس لئے گزارتا ہے کہ جب تم اس حیرت انگیز نظام پر غور کرو تو سمجھ جاؤ کہ کوئی خلاق ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے اور وہ ایک ہی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ورنہ کائنات کے اس سلسلے میں ہر چیز کی ایک دوسرے کے ساتھ نہ اتنی زبردست موافقت و مناسبت ہوتی اور نہ ہی یہ نظام ایک لمحے کے لئے چل سکتا یا باقی رہ سکتا۔ اور تاکہ یہ بھی سمجھ جاؤ کہ یہاں ہر مرحلے کے بعد اگلا مرحلہ ہے، مٹی اور نطفے سے پیدا کرنے والے اور اسے ایک وقت تک پہنچانے کے بعد قبض کرلینے والے کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرلے اور تمہارا حساب لے۔ یعنی اگر غور کرو تو پیدائش کے اس سلسلے سے اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی وحدانیت اور تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر اس کا قادر ہونا آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ”یعنی اتنے احوال تم پر گزرے ، شاید ایک حال اور بھ گزرے (اور) وہ (ہے) مر کر جینا۔“ (واضح)
Top