Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 82
وَ لَنْ یَّنْفَعَكُمُ الْیَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّكُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ
وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يَّنْفَعَكُمُ : نفع دے گا تم کو الْيَوْمَ : آج اِذْ ظَّلَمْتُمْ : جب ظلم کیا تم نے اَنَّكُمْ : بیشک تم فِي الْعَذَابِ : عذاب میں مُشْتَرِكُوْنَ : مشترک ہو
اور آج یہ بات تمہیں ہرگز نفع نہ دے گی، جب کہ تم نے ظلم کیا کہ بیشک تم (سب) عذاب میں شریک ہو۔
(ولن ینفعکم الیوم…: دنیا میں اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اسے اس بات سے کچھ تسلی ہوتی ہے کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اور لوگ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اس کے علاوہ دوستوں کی صحت کے احساس سے بھی تکلیف میں کچھ کمی ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے اور حوصلہ دلاتے ہیں۔ عام مقولہ ہے : ”ہمہ یاراں دوزخ ، ہمہ یاراں بہشت“ کہ دوزخ میں گئے تو سب دوست اکٹھے جائیں گے اور بہشت میں گئے تو بھی اکٹھے جائیں گے۔ قرین کی مناسبت سے فرمایا کہ اگر تم اس بات سے کچھ تسلی حاصل کرنا چاہو کہ میں عذاب میں ہوں تو میرا قرین بھی تو عذاب میں ہے تو تمہارا یہ خیال غلط ہے، جب تم دنیا میں ظلم کرتے رہے تو آج تمہیں اس بات سے ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ تم عذاب میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو، کیونکہ وہ عذاب ہی اتنا سخت ہے کہ کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہوگا، بلکہ محروم اپنے تمام خویش، و اقارب فدیے میں دے کر اس عذاب سے نجات پانے کی خواہش کرے گا۔ (دیکھیے معارج : 11 تا 14) شاہ عبدالقدر لکھتے ہیں :”یعنی کافر کہیں گے خوب ہوا کہ انہوں نے ہمیں عذاب میں ڈلوایا، یہ بھی نہ بچے، لیکن اس کا کیا فائدہ اگر دوسرا پکڑا گیا۔“ (موضح)۔
Top