Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے، یا تم پر قیامت آجائے تو کیا اللہ کے سوا غیر کو پکارو گے ؟ اگر تم سچے ہو۔
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَاب اللّٰهِ۔۔ : اس مضمون کو بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (67) ، سورة زمر (38) ، سورة مومنون (84 تا 89) ، سورة لقمان (32) اور سورة یونس (22) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے زمانے کے مشرکین کا طرز عمل بیان فرمایا، مطلب یہ ہے کہ توحید انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے، وہ ماحول کے اثر سے یا آباء و اجداد کی تقلید سے شرک میں گرفتار ہوتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر و نیاز بھی ان کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب آزمائش سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب کو بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے، پھر بےبس انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور صرف اسی ایک ذات کو پکارتا ہے جسے پکارنا چاہیے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی طرز عمل کو بطور ثبوت توحید کی دلیل کے طور پر بیان کیا، یعنی اگر اپنے اس دعویٰ میں کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ تم پر آئی ہوئی بلا ٹال سکتے ہیں تو یہ بتاؤ کہ اللہ کا عذاب آنے کی صورت میں، یا قیامت آنے پر بھی کیا تم غیر اللہ کو پکارو گے ؟ نہیں بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے، باقی مشکل کشا تمہیں بھول جائیں گے۔ یہ تو ان کفار و مشرکین کا حال تھا لیکن آج خود مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی فطرت اس قدر مسخ ہوچکی ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی فریاد کرتے ہیں تو اپنے کسی خود ساختہ داتا سے یا علی (t) سے، یا شیخ عبد القادر جیلانی سے، انھیں غوث اعظم، یعنی سب سے بڑا مدد گار کہہ کر، یا رسول اللہ ﷺ سے، یا فاطمہ، حسین اور حسن ؓ سے۔ نعرے بھی ان سے مدد مانگنے کے الفاظ کے ساتھ لگاتے ہیں، جیسا کہ یا رسول اللہ، یا علی، یا غوث اعظم وغیرہ، گویا ان کی حالت عملی طور پر ان پہلے کفار و مشرکین سے بھی بدتر ہے۔
Top