Anwar-ul-Bayan - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
بلاشبہ جو لوگ ہمارے پاس آنے کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا والی زندگی پر راضی ہوگئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں
اہل کفر کی سزا اور اہل ایمان کی جزا ان آیات میں اول تو ان لوگوں کے لئے وعید ذکر فرمائی جنہیں قیامت کا اور وہاں کی پیشی کا کوئی کھٹکا نہیں وہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور پوری طرح دنیا میں جی لگا رکھا ہے۔ اور اس دنیا والی زندگی سے خوش ہیں ایسے لوگ اور وہ لوگ دوزخ میں داخل ہوں گے ‘ دوزخ ان کا ٹھکانہ ہے انہوں نے اعمال ہی ایسے کئے جو انہیں دوزخ میں لے جائیں۔ پھر اہل ایمان کو بشارت دی اور فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی وجہ سے انہیں جنت کی راہ بتائے گا ‘ یعنی جس طرح انہیں دنیا میں ہدایت دی ایمان کی دولت سے مالا مال فرمایا اسی طرح آخرت میں ان کو جنت میں جانے کا راستہ بتادے گا وہ اپنی اپنی راہ پر چل کر اپنے اپنے منازل ومساکن میں پہنچ جائیں گے۔ حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ جنتی وہاں اپنے اپنے گھروں کا راستہ اس سے زیادہ پہچاننے والے ہوں گے جیسا کہ دنیا میں اپنے اپنے گھروں کا راستہ پہچانتے تھے۔ یہ حضرات باغوں میں ہوں گے جو چین اور آرام کے باغ ہوں گے ان کا تحیہ سلام ہوگا اور آخری بات (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) ہوگی ملاقات کے وقت جو دعائیہ کلمات ادا کئے جاتے ہیں انہیں تحیہ کہا جاتا ہے۔ بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہیں گے اور اللہ کی پاکی بیان کریں گے یعنی (سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ ) کہتے رہیں گے اور آخر میں ایک دوسرے سے رخصت ہوں گے تو یوں کہیں گے (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہاں کا پروردگار ہے) اہل جنت اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید میں ہمیشہ اور ہر وقت مشغول رہیں گے اور وہاں کی زندگی کی بقاء کا ذریعہ تسبیح اور تحمید ہی ہوگا۔ صحیح مسلم (ص 379 ج 2) میں ہے۔ یلھمون التسبیح والتحمید کما تلھمون النفس ان کی تسبیح اور تحمید ایسے جاری ہوگی جیسے (دنیا میں) تمہارا سانس جاری رہتا ہے ‘ یعنی تسبیح وتحمید سے نہ تھکیں گے نہ اکتائیں گے ‘ نہ نعمتوں کی مشغولیت انہیں تسبیح اور تحمید سے غافل کرے گی ‘ جیسے فرشتے تسبیح وتحمید میں لگے ہوئے تمام کام انجام دیتے ہیں جن کا انہیں حکم ہوتا ہے اسی طرح اہل جنت ہر وقت ہی اللہ کی تسبیح میں مشغول ہوں گے وہاں کی نعمتیں اور عجیب چیزوں کا معائنہ کریں گے تو ان کے منہ سے سبحان اللہ نکلے گا۔ تفسیر ابن کثیر (ص 408 ج 2) میں حضرت ابن جریج سے نقل کیا ہے کہ جب کوئی پرندہ گزر رہا ہوگا اہل جنت کو اس کے کھانے کی خواہش ہوگی تو وہ (سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ ) کہہ دیں گے ان کی خواہش کے مطابق فرشتہ اسے حاضر کر دے گا اور جب فرشتہ آئے گا تو سلام کے الفاظ ادا کرے گا جس کا وہ حضرات جواب دیں گے ‘ جب وہ اپنی خواہش کی چیزیں کھا لیں گے تو اخیر میں (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) کہیں گے۔ لفظ دعویٰ کا ترجمہ مطلق کلام بھی کیا گیا ہے ‘ اور بعض مفسرین نے کسی چیز کے طلب کرنے کا معنی بھی لیا ہے اور بعض حضرات نے دعاء کا ترجمہ بھی کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعاء کریں گے تو اللہ کی تسبیح بیان کریں گے اور دعاء کے ختم پر (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) کہیں گے یہ تینوں معنی لغت عربی کے اعتبار سے درست ہیں اگر دعاء کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ان کے لئے کسی چیز کی کمی تو نہ ہوگی جو اپنی ضرورت کے لئے دعاء مانگیں لیکن تلذذ کے طور پر اور آداب بندگی بجالانے کے لئے وہ حضرات دعاء مانگا کریں گے۔
Top