Maarif-ul-Quran - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی پر مطمئن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں۔
بیان حال ومآل منکرین معاد وبیان نعیم اہل ارشاد قال اللہ تعالی۔ ان الذین لا یرجون۔۔ الی۔۔۔ ان الحمد للہ رب العلمین (ربط): اوپر کی آیتوں میں مبداء اور معاد کا ذکر تھا اب ان آیات میں معاد کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا حال ومآل بیان ہوتا ہے جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان کی تہدید ہے اور ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے اخروی نتائج کا بیان ہے اور یہ بتلاتے ہیں کہ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں اور حیات فانیہ پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور اس کو اپنا مقصود اور مطمح نظر سمجھ بیٹھے اور اس قدر غافل ہیں کہ دلائل قدرت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے وہ شقی اور بدبخت ہیں اور جو لوگ آخرت کو مانتے ہیں اور اس کے لیے تیاری کرتے ہیں وہ سعید اور خوش نصیب ہیں ان کا عمل ان کے سامنے نور بن کے چلے گا اور جس درجہ کا ایمان ہوگا اسی درجہ کا نور ہوگا ان آیات میں اولاً منکرین آخرت کا حال اور مآل بیان کیا اور پھر مصدقین آخرت کا حال اور مآل بیان کیا تاکہ خوب فرق واضح ہوجائے۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق جو لوگ قیامت کے دن ہمارے پیش ہونے کی امید نہیں رکھتے۔ یعنی آخرت اور جزاء کے منکر ہیں اور دنیاوی زندگی پر خوش ہیں اور اس پر ان کو اطمینان قلب ہے۔ یعنی اس میں ان کا جی لگا ہوا ہے۔ اور آخرت کی طلب سے خالی ہے دنیا ہی کو منتہائے مقصود سمجھے ہوئے ہیں جس کے مقابلے میں ان کو کسی چیز کی پرواہ نہیں اور وہ لوگ جو دنیاوی لذتوں میں اس قدر غرق ہیں کہ ہماری قدرت کی نشانیوں سے بالکل غافل ہیں۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ کی آگ ہے ظاہر میں تو آگ ہوگی ہی اور باطن میں بھی آگ ہوگی وہ یہ کہ وہاں پہنچ کر اپنی تمام مرغوب اور محبوب چیزوں سے محروم ہوجائیں یہ آتش فراق اور آتش حیرت اندر ہی اندر سوزاں ہوگی اور یہ آتش دوزخ بدلہ اور سزا ہوگی اس عمل کی جو دنیا میں کماتے تھے۔ یعنی یہ آتش دوزخ ان کے کفر اور شرک کی سزا ہوگی۔ اور اس میں شک نہیں کہ جو لوگ اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان لائے اور جنت کے لیے انہوں نے نیک کام کیے ان کا پروردگار ان کے ایمان کے سبب ان کو جنت کی راہ دکھائے گا ان کے مکانوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی یہ لوگ نعمت اور عیش و عشرت کے باغوں میں ہوں گے اور نعمت کے باغوں میں ان کا عجب حال ہوگا۔ اور وہاں ان کا قول یہ ہوگا سبحنک اللھم۔ اے اللہ تو پاک ہے وعدہ خلافی سے اور تمام نقائص سے یعنی جنت میں پہنچنے کے بعد ان کا شغل تسبیح و تقدیس ہوگا اور اسی میں ان کو لذت آئے گی کوئی لغو اور بیہودہ بات ان کی زبان سے نہیں نکلے گی۔ اور باہمی ملاقات کے وقت ان کی دعائے خیر سلام ہوگی۔ یعنی ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو دعا سلام ہوگی۔ نیز فرشتے بھی ان کو سلام کریں گے اور سلامتی کی بشارت دیں گے اور ان کا اخیر قول یہ ہوگا الحمد للہ رب العلمین۔ یعنی سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو پروردگار ہے سارے جہانوں کا یعنی ان کے کلام کی ابتدا تسبیح سے ہوگی۔ اور اس کا اختتام تحمید پر ہوگا یعنی اخیر میں اللہ کی حمدوشکر کریں گے۔ کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے یہ نعمتیں عطا کیں۔ حدیث میں ہے کہ اہل جنت کو تسبیح وتحمید کا اہتمام ہوگا اور سانس کی طرح ان کی زبان سے تسبیح وتحمید جاری ہوگی اور تحمید وتسبیح سے بڑھ کر اہل جنت کو کوئی چیز لذیذ معلوم نہ ہوگی۔ قطعہ ذوق نامش عاشق مشتاق را از بہشت جاودانی خوش تر است گرچہ در فردوس نعمتہائے است وصل او از ہر چہ دانی خوشتر ست زجاج کہتے ہیں کہ اہل جنت کے کلام کا آغاز تسبیح وتعظیم سے ہوگا اور اس کا اختتام خدا کے شکر اور ثنا پر ہوگا۔ (تفسیر کبیر صفہ 565 ج 4)
Top