Urwatul-Wusqaa - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
(اے پیغمبر اسلام ! ) جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے صرف دنیا کی زندگی میں مگن ہیں اور اس حالت پر مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہوگئے ہیں
نشانات الٰہی غافل کون ہیں ؟ وہی جو دنیا کی زندگی میں مگن ہیں 16 ؎ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ اس آیت کے چند گنے ہوئے لفظوں میں حقیقت حال کی کیسی کامل تصویر کھینچ کر رکھی دی جس سے کوئی گوشہ بھی انسانی زندگی کا باہر نہیں رہا اور پھر ساتھ ہی وجود آخرت کے تمام دلائل بھی خود بخود نمایاں ہوگئے ۔ پھر غور کرو گے تو پا لو گے کہ منکرین آخرت کی ذہنیت کی چار حالتیں ہیں ۔ 1۔ ان کے اندر اللہ سے ملنے کی کوئی توقع نہیں ۔ 2۔ صرف دنیوی ہی میں خوشنود ہو رہے ہیں ۔ 3۔ اس حالت کے خلاف اس کے اندر کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی اور اس پر مطمئن ہوگئے ۔ 4۔ ان کا ذہن و ادراک اس درجہ معطل ہوگیا ہے کہ قدرت کی تمام نشانیاں جو چاروں طرف پھیلی ہیں انہیں بیدار نہیں کرسکتیں ، وہ ایک قلم غافل ہوگئے۔ پھر غور کرو کہ ان میں سے ہر ایک بات نہ صرف بیان حاصل ہے بلکہ بجائے خود ایک دلیل بھی ہے اور یہی قرآن کریم کی معجزانہ بلاغت ہے اور ایک مزید یاد رہے کہ قرآن کریم نے ہر جگہ آخرت کے معاملہ کو ” لقاء الٰہی “ سے تعبیر کیا ہے اور اس تعبیر نے واضح کردیا ہے کہ حیات آخرت کی اصل حقیقت قرآن کریم کے نزدیک کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ ادیان عالم کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی اس دنیا میں ختم نہیں ہوجاتی اس کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور اس زندگی میں جیسے کچھ اعمال ہوں گے ویسے ہی نتائج دوسری زندگی میں پیش آئیں گے۔ قرآن کریم میں بھی ایمان باللہ کا ایک بنیادی عقیدہ یہی مسئلہ ہے البتہ اس نے جو تعبیر اختیار کی ہے وہ پیرو ان مذاہب کے عام تصور سے مختلف ہے۔ وہ اس گوشہ کو کائنات ہستی کے عالمگیر قوانین خلقت سے الگ نہیں قرار دیتا بلکہ اس کے ماتحت لاتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح دنیا میں ہرچیز کے خواص اور ہر حادثہ کے نتائج ہیں ٹھیک اسی طرح انسانی اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں اور یہاں مادیات کی طرح معنویات کے قوانین کے بھی کام کر رہے ہیں ۔ بس اچھے عمل کا نتیجہ اچھا ہی ہوگا اور برے عمل کا نتیجہ برائی ۔ رہی یہ بات کہ یہ اچھے برے نتائج کس شکل میں پیش آئیں گے ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ نیک عمل انسان اصحاب جنت ہیں ان کیلئے بہشتی زندگی کی خوشحالیاں ہوں گی اور رضائے الٰہی کی دائمی نعمت ۔ بد عمل انسان اصحاب دوزخ ہیں ان کیلئے دوزخی زندگی کی بد حالیاں ہوں گی اور نعمت اخروی سے محرومی پھر دونوں طرح کی زندگیوں کے احوال و واردات ہیں جنہیں جا بجا مختلف اسلوبوں میں بیان کیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس بارے میں ہم اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ عالم ہمارے ادراک کی سرحد سے باہر ہے۔ جسم مقام کا اہم ادراک نہیں کرسکتے وہاں کے حالات کی نسبت حکم کیسے لگائیں ؟ اگر لگائیں گے تو یہ ظن و گمان ہوگا اور ظن سے یقین پیدا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اس پر بھی ہم یقین کیوں کرلیں ؟ اس لئے کہ ہم وجدانی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ سرحد محسوسات سے ماوراء بھی ایک حقیقت موجود ہے اور اگر اس حقیقت سے انکار کردیں تو کائنات ہستی کے مسئلہ کا کوئی حل باقی نہیں رہتا اور خود ہماری عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور یہ کہ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر اللہ کی ہستی اور آخرت کی زندگی کا مبدا تسلیم نہیں کیا جاتا تو مسئلہ ہستی کے سارے سوالات لا یخل ہوجاتے ہیں لیکن جونہی یہ لفظ تسلیم کرلیا جاتا ہے معاً سارے سوالات حل ہوجاتے ہیں اور مجہولت کی تاریکی جگہ عرفان و بصیرت کی روشنی ہر طرف نمایاں ہوجاتی ہے۔ پس ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ نقطہ بناوٹی نہیں ہے بلکہ حقیقی ہے۔ البتہ ایک باتواضح ہے کہ جب ہم عالم آخرت کے احوال و واردات سنتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی ہی شکل سامنے آجاتی ہے جو اس زندگی کی محسوسات کے لحاظ سے ہو سکتی ہے لیکن خود قرآن کریم اور سنت رسول اللہ ﷺ کی تصریحات نے میں بتلا دیا کہ عالم آخرت کی باتوں کو اس دنیا کی باتوں کی طرح نہیں سمجھنا چاہئے۔ مثلاً جب ہم سنتے ہیں کہ جہنم میں آگ ہوگی اور بہشت سے مقصود باغ ہے تو ہمارے سامنے آگے کی وہی شکل آجاتی ہے جو ہمارے چولہوں میں جلا کرتی ہے اور اس طرح باغ کا وہی نقشہ کھینچ جاتا ہے جو اپنے مکان کے صحنوں میں اگایا کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ عالم آخرت کی آگ اس دنیا کی آگ کی طرح نہیں ہو سکتی اور نہ وہاں کے باغ و چمن ہمارے اگائے ہوئے باغوں کی طرح ہوں گے ۔ چناچہ سورة السجدہ کی آیت میں ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍج جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (السجدہ : 32 : 17) کوئی جان نہیں جانتی کہ اس کی نیک عملیوں کی جزاء میں نگاہ کا کیا سرور پردہ عیب میں پوشیدہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت کی راحت و سرور کی حقیقت کا ہم اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اس طرح ایک حدیث میں پیغمبر اسلام ﷺ نے جنت کی حقیقت اس طرح بتلائی ہے لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر یبالی احد بشر ( مسلم) نہ تو کسی آنکھ نے دیکھی ، نہ کسی کان نے سنی اور نہ ہی کسی فرد بشر کے خیال میں گزری ! حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیا سے کوئی مشابہت نہیں رکھتیں بجز اس کے کہ نام میں مشارکت ہے ( ابن کثیر) باقی رہی یہ بات کہ اگر عالم آخرت کے یہ معاملات دنیا کے معاملات کے مثل نہیں ہوں گے تو پھر ان کی حقیقت کیسی ہوگی ؟ تو عرض یہ ہے کہ اس بارے میں ہماری عقلی کاوش کچھ معلوم نہیں کرسکتی لہٰذایہ مسئلہ خالصتہ ًعلم غیب کا ہے جس کا تعلق ایمانیات سے ہے۔ اصل یہ ہے کہ مادی زندگی کے احساسات و مفہومات کا زنجیروں میں ہم کچھ اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ ان سے آزاد ہو کر جمال حقیقت کا تصور ہی نہیں کرسکتے پس اس کے سوا چارہ نہیں کہ جو کچھ بتلا دیا گیا ہے اس پر یقین کرلیں اور جو کچھ نہیں پا سکتے اس کی کاوش میں سرگرداں نہ ہوں اور اگر سرگرداں ہوں گے تو حقیقت کا سراغ تو نہیں ملے گا البتہ نئے نئے وہموں اور گمانوں میں مبتلا ہوجائیں گے ؎ اے بروں از دہم و قال و قیل من خاک بر فرق من و تمثیل من
Top