Anwar-ul-Bayan - Hud : 111
وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَاِنَّ : اور بیشک كُلًّا : سب لَّمَّا : جب لَيُوَفِّيَنَّهُمْ : انہیں پورا بدلہ دیگا رَبُّكَ : تیرا رب اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں خَبِيْرٌ : باخبر
اور بیشک جتنے لوگ ہیں آپکا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیگا بیشک وہ ان کے اعمال سے باخبر ہے
پھر فرمایا۔ (وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْ ) (اور بیشک آپ کا رب ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دے گا) (اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ) (بیشک وہ ان کے اعمال سے باخبر ہے) طاعات اور عاصی کی سب تفصیلات اسے معلوم ہیں۔ اس کے علم سے کسی کا کوئی علم باہر نہیں وہ اپنے علم اور حکمت کے مطابق جزا اور سزا دے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کو اور آپ کے مصاحبین کو خطاب فرمایا (فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ ) (سو آپ استقامت پر رہیں) صحیح طور پر قائم رہنے کو استقامت کہا جاتا ہے اور سیدھے راستہ کو (صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمَ ) کہتے ہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مؤمن بندوں کو اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے بتایا ہے۔ اور اس پر حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے متبعین چلتے رہے ہیں صراط مستقیم کو پوری طرح پکڑ لینا اور تمام احکام الٰہیہ کو پوری طرح بجا لانا ادھر ادھر مائل نہ ہونا اور برابر آخر دم تک اس پر چلتے رہنا استقامت ہے اس آیت میں سید المرسلین ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ آپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے بالکل اسی طرح اہتمام اور پابندی کے ساتھ چلتے رہیں اور ساتھ ہی (وَمَنْ تَابَ مَعَکَ ) بھی فرمایا کہ جن لوگوں نے شرک وکفر سے توبہ کی ہے اور ایمان کو قبول کیا وہ لوگ بھی استقامت کے ساتھ چلتے رہیں رسول اللہ ﷺ تو بااستقامت تھے ہی پھر بھی آپ کو اس کا تاکیدی حکم فرما دیا اور آپ کے ساتھیوں کو بھی مامور فرمایا کہ استقامت اختیار کریں ہمیشہ پابندی سے معمولات پر عمل کریں اور منہیات سے بچیں۔ قال صاحب الروح (ص 153 ج 12) وھی کلمۃ جامعۃ لکل ما یتعلق بالعلم والعمل وسائر الاخلاق فتشمل العقائد والاعمال المشترکۃ بینہ ﷺ وبین سائر المومنین والامور الخاصۃ بہ (علیہ الصلوۃ والسلام) من تبلیغ الاحکام والقیام بوظائف النبوۃ و تحمل اعباء الرسالۃ وغیر ذلک۔ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں یہ استقامت کا لفظ علم وعمل اور اخلاق کے تمام متعلقات کو جامع ہے پس یہ عقائد اور اعمال جو حضور ﷺ اور تمام مؤمنین میں مشترک ہیں ان کو بھی شامل ہے اور احکام کی تبلیغ اور نبوت کے وظائف اور رسالت کی ذمہ داریوں جیسے حضور ﷺ کے مخصوص امور کو بھی شامل ہے) درحقیقت استقامت بہت بڑی چیز ہے اور کام بھی سخت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جو لوگ بڑھتے ہیں اور استقامت کو چاہتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوجاتی ہے ہر مؤمن بندہ کو اس کے لئے فکر مند رہنا چاہئے۔ حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے دین اسلام سے متعلق کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ مجھے آپ کے بعد کسی اور سے دریافت کرنا نہ پڑے آپ ﷺ نے فرمایا (قُلْ اٰمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ) کہ تو آمنت باللہ کہہ دے (یعنی اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دے) پھر اپنی اس بات پر استقامت رکھ یعنی اس پر مضبوطی کے ساتھ جمارہ اور اسلام کے تقاضوں کو پورا کرتا رہ (رواہ مسلم) ۔ سوال بھی مختصر تھا اور جواب بھی مختصر ‘ لیکن اختصار کے ساتھ اس میں سارا دین بیان فرما دیا۔ در منثور (ص 351 ج 3) میں ہے کہ حضرت حسن نے بیان فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شمّروا شمّروا (تیار ہوجاؤ تیار ہوجاؤ) نیز حضرت حسن نے یہ بھی کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس کے بعد ہنستے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ سنن ترمذی میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ بوڑھے ہوگئے (یعنی آپ پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوگئے) آپ نے فرمایا سورة ہود اور سورة واقعہ اور سورة والمرسلات اور سورة عم یتساء لون اور سورة اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا (مشکوٰۃ المصابیح ص 458) ان سورتوں میں قیامت کے احوال مذکور ہیں۔ ان احوال کی فکر مندی نے آپ کو اتنا متاثر کیا۔ روح المعانی میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اس آیت سے زیادہ شدید کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ بعض اکابر سے اس سلسلہ میں ایک خواب بھی نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے سورة ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا سورة ہود میں ایسی کون سی بات ہے جس کی وجہ سے آپ بوڑھے ہوگئے آپ نے فرمایا اس میں جو استقامت کا حکم ہے اس نے مجھے بوڑھا کردیا (راجع حاشیۃ المشکوٰۃ) یہ خواب اس کے معارض نہیں ہے کہ سورة ہود اور اس جیسی دوسری سورتوں میں جو قیامت کے دن کے احوال واھوال مذکور ہیں ان کی وجہ سے بڑھاپا آگیا کیونکہ وہ سب امور اور امر بالاستقامت سب بڑھاپے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر خشیت الٰہی کا غلبہ تھا استقامت کے باوجود آپ کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے جیسے استقامت کا حکم دیا ہے وہ پوری نہیں ہوئی اس فکر مندی نے آپ کی صحت کو متاثر کردیا۔
Top