Al-Qurtubi - Hud : 111
وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَاِنَّ : اور بیشک كُلًّا : سب لَّمَّا : جب لَيُوَفِّيَنَّهُمْ : انہیں پورا بدلہ دیگا رَبُّكَ : تیرا رب اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں خَبِيْرٌ : باخبر
اور تمہارا پروردگار ان سب کو (قیامت کے دن) انکے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا۔ بیشک جو عمل یہ کرتے ہیں وہ اس سے واقف ہے۔
آیت نمبر 111 قولہ تعالیٰ : وان کلالمالیوم فینھم ربک اعمالھم یعنی وہ تمام قومیں جنہیں ہم نے شمار کیا ہے اپنے اعمال کی جزاء کو دیکھ لیں گی۔ اے محمد ! ﷺ اسی طرح آپ کی قوم بھی دیکھ لے گی۔ وان کلالما کی قراءت میں قراء کا اختلاف ہے۔ اہل حرمین، نافع، ابن کثیر اور ان کے ساتھ ابوبکر نے وان کلاتخفیف کے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے اسے ان مشقلہ سے مخففہ معملہ بنایا ہے۔ خلیل نحوی اور سیبیویہ نے بھی اسے ذکر کیا ہے، سیبیویہ نے کہا : ہمیں ایک ایسے آدمی نے بیان کیا ہے جس پر میں اعتماد کرتا ہے۔ خلیل نحوی اور سیبویہ نے بھی اسے ذکر کیا ہے، سیبویہ نے کہا : ہمیں ایک ایسے آدمی نے بیان کیا ہے جس پر میں اعتماد کرتا ہوں کہ اس نے عربوں کو إن زیدالمنطلقکہتے سنا ہے۔ اور شاعر کا شعر بھی بطور استدلال اس نے پڑھا : کأن ظبیۃ تعطو الی وارق السلم اس کی مراد کأنھاظبیۃ ہے یعنی اس کو محفف کردیا اور مابعد کو نصب دے دی، بصری أن مشددہ کو عاملہ بناتے ہوئے بھی اس کی تخفیف کو جائز قرار دیتے ہیں۔ جب کہ کسائی نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا : میں نہیں جانتا کہ کس بنیاد پر وان کلا پڑھا گیا ہے اور فراء کا خیال یہ ہے کہ جس نے تخفیف کی ہے اس کے کلا کو لیوفینھم کی وجہ سے نصب دی ہے وان لیوفینھم کلا جب کہ تمام نحویوں نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے : یہ بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی ہے۔ کسی کے نزدیک بھی زیدا لاضربنہ جائز اور صحیح نہیں ہے اور باقیوں نے ان کو مشدد اور کلا کو اس کی اصل کے مطابق اس کے ذریعے نصب دی ہے۔ اور عاصم، حمزہ اور ابن عامر نے لما کو شد کے ساتھ پڑھا ہے اور باقیوں نے إن کلالیوفینھم کے معنی پر اسے مخفف پڑھا ہے۔ اور ماکو انہوں نے صلہ بنایا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے یہ ان دو لاموں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لیے آیا ہے جو قسم پر آتی ہیں، اور وہ دونوں مفتوح ہیں تو ان کے درمیان ما کے ذریعے فاصلہ کیا گیا۔ زجاج نے کہا : لما کی لام تو ان کی وجہ سے ہے جب کہ مازائدہ موکدہ ہے، جیسے آپ ان زید المنطلق کہتے ہیں۔ ان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے اسم یا خبر پر لام داخل ہو جیسے ان اللہ غفور رحیم۠(التوبہ) اور ان فی ذٰلک لذکرٰی (ق :37) اور لیوفینھم میں موجود لام وہ ہے جس کے ذریعے قسم کے ساتھ ملا جاتا ہے، یہ فعل پر داخل ہوتی ہے اور اسے نون مشددہ یا مخففہ لازم کردیتی ہے اور جب دو لا میں جمع ہوگئیں تو ان کے درمیان ما کے ذریعے فاصلہ کیا گیا اور ما زائدہ مؤکدہ ہے۔ فراء نے کہا : مابمعنی من ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وان منکم لمن لیبطئن (النساء :72) میں ہے یعنی وان کلا لمالیوفیھم اور لیوفینھم میں لام قسم کے لیے ہے۔ اس کا معنی زجاج کے قول کے مطابق ہے البتہ یہ فرق ہے کہ زجاج کے نزدیک مازائدہ ہے کہ فراء کے نزدیک مابمعنی من اسم ہے۔ اور ایک قول یہ ہے : یہ زائدہ نہیں، بلکہ یہ اسم ہے اور اس پر لام تاکید داخل ہوئی اور یہ ان کی خبر ہے جب کہ لیوفینھم جواب قسم ہے، تقدیر عبارت یہ ہے : وإن کلاخلق لیوفینھم ربک أعمالھم یقینا سب کے سب مخلوق ہیں تیرا رب ضرور انہیں ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ اور ایک قول کے مطابق ما بمعنی من ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : فانکحوا ماطاب لکم من النسآء (النساء :3) میں ما بمعنی من ہے۔ اور یہ سارے کا سارا بعینہ فراء کا قول ہے۔ اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے لما اور ان دونوں کو مشدد یعنی وان کلا لما پڑھا ہے۔ اور وہ حمزہ اور اس کی موافقت کرنے والے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ ایک لمحہ ہے، جو محمد بن زید سے منقول ہے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ ان زیدا الا لاضربنہ نہیں کہا جاتا اور نہ ہی زیدالمالضربتہ کہا جاتا ہے اور کسائی نے کہا : اس قراءت کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کسائی اور ابوعلیٰ فارسی نے یہ بھی کہا ہے : انب دونوں کو مشدد پڑھنا مشکل ہے۔ نحاس وغیرہ نے کہا : نحویوں کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں۔ پہلا : اس کی اصل لمن ما ہے نون کو میم سے بدلا، تین میمیں جمع ہوگئیں تو درمیان والی کو حذف کردیا گیا تو لما بن گیا اس قول کے مطابق مابمعنی من ہے اور اس کی تقدیر وان کلا لمن الذین ہے، جس طرح کہ ان کا یہ قول : وإنی لما أصدر الأمر وجھہٰ إذا ھو أعیا بالسبیل مصادرہ اس شعر میں لما کی یہی صورتحال ہے۔ زجاج نے اس کو ناکارہ قرار دیا ہے اور کہا : من دو حرفوں پر مشتمل ایک اسم ہے لہٰذا اس کا حذف جائز نہیں۔ دوسرا : اصل لمن ہے اجتماع میمات کی وجہ سے میم مک سورة کو حذف کردیا گیا، تقدیر عبارت وان کلالما لیوفینھم ہے۔ اور ایک قول یہ ہے : لما، لم کا مصدر ہے اور وصل کو وقف پر محمول کرتے ہوئے بغیر تنوین کے آیا ہے، اس بنیاد پر یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد وتاکلون التراث اکلالما۔ (الفجر) کی طرح ہے اکلالما سے مراد مال ماکول کو جامع ہے۔ اس صورت میں تقدیر عبارت : وإن کلالیو فینھم ربک اعمالھم توفیۃ لما ہوگی۔ اور معنی ہوگا : ان سب کے اعمال کو جامع، اور یہ آپ کے قول : قیامالأقومن کی طرح ہے۔ اور زہری نے اس معنی کی بنیاد پر لماتشدید اور تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔ تیسرا : لما، الا کے معنی ہے اہل لغت نے حکایت کیا ہے : سالتک باللہ لما فعلت یعنی إلافعلت اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ان کل نفسٍ لماعلیھا حافظ۔ (الطارق) اسی کی طرح ہے یعنی الاعلیھا حافظ تو آیت کا معنی یہ ہوگا : ان میں سے کوئی بھی نہیں مگر وہ انہیں ضرور پورا پورا بدلہ دے گا۔ ماکل واحد منھم إلا لیوفینھم۔ قشیری نے کہا : زجاج نے اس قول کو اس بنیاد پر ناکارہ قرار دیا ہے کہ وان کلا لما میں نفی ہے ہی نہیں کہ إلا کو مقدر مان لیا جائے اس پر دلیل یہ ہے کہ ذھب الناس لما زید تو نہیں کہا جاتا (یعنی بغیر نفی إلا نہیں آتا) چوتھا : ابوعثمان ازنی نے کہا : اصل میں وان کلالما، لما کی تخفیف کے ساتھ ہے پھر اس پر شد ڈال دی گئی، جس طرح کہ یہ شعر ہے : لقد خشیت ان أزی جدبا فی عامنا ذا بعد ما أخصبا اس میں جدبا، لقد اخصبا اصلاً بغیر شد کے ہیں بعد میں ان کو مشدد کردیا گیا ہے۔ ابواسحاق زجاج نے کہا : یہ غلط ہے : مثقل کو تو مخفف بنایا جاتا ہے مگر مخفف کو مثقل نہیں بنایا جاتا۔ پانچواں : ابوقاسم بن سلام نے کہا : ہوسکتا ہے کہ تشدید عربوں کے اس قول کے قبیل سے ہو : لممت الثیء المہ لما یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اس چیز کو جمع کرلیں، پھر اس سے فعلی کا وزن بنالیا گیا ہو جس طرح ثم ارسلنارسلناتترا (المومنون :44) پڑھا جاتا ہے، یہ تنوین اور بغیر تنوین دونوں طرح آتا ہے، اس بنیاد پر الف تانیث کا ہوگا، اصحاب امالہ کے نزدیک اس قول پر امالہ کیا جائے گا۔ ابواسحاق نے کہا : وہ بات کہ جس کے علاوہ میرے نزدیک کوئی اور جائز ہی نہیں وہ یہ ہے کہ یہ مخففہ من مثقلہ ہو اور ما کے معنی میں ہو جسطرح ان کل نفسٍ لما علیھا حافط (الطارق) ہے اور اسی طرح اپنی اصل کے مطابق یہ مشدد بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں بھی یہ بمعنی ما ہوگا اور لما بمعنی الا ہوگا۔ یہ خلیل، سیبویہ اور تمام مصریوں سے منقول ہے۔ اور لما بمعنی الا استعمال ہوتا رہتا ہے۔ میں (قرطبی) نے کہا : یہ قول کس کو زجاج نے پسند کیا ہے اسے زجاج سے نحاس وغیرہ نے بیان کیا ہے، اسی جیسا قول اور زجاج کا اسے ضعیف قرار دینا گزر چکا ہے البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اس قول میں ان نافیہ ہے اور وہاں مخففہ من مثقلہ ہے پس دونوں میں فرق ہے۔ اب دو قراءتیں باقی رہ گئیں۔ ابو حاتم نے کہا : ابی کے حروف میں ان کل الالیوفینھم ہے اور اعمش سے وان کلالما مروی ہے یعنی ان کی تخفیف کل کے رفع اور لما کی تشدید کے ساتھ۔ نحاس نے کہا : یہ قراءتیں جماعت کے مخالف ہیں اس میں ان بمعنی ما ہوگا اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں ہوسکتی، کیونکہ جماعت کے مخالف سوائے اس طریقے کے پڑھنا جائز نہیں۔ انہ بما یعملون خبیر یہ دھمکی اور وعید ہے۔
Top