Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 27
وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗ١ؕ قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ١ؕ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَفْرَحُوْنَ : وہ خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس سے جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف وَ : اور مِنَ : بعض الْاَحْزَابِ : گروہ مَنْ : جو يُّنْكِرُ : انکار کرتے ہیں بَعْضَهٗ : اس کی بعض قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : میں عبادت کروں اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَآ اُشْرِكَ : نہ شریک ٹھہراؤں بِهٖ : اس کا اِلَيْهِ : اس کی طرف اَدْعُوْا : میں بلاتا ہوں وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف مَاٰبِ : میرا ٹھکانا
اے ایمان والو، اللہ و رسول سے بےوفائی اور اپنی امانتوں میں خیانت جانتے بوجھتے نہ کرو
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ یہ آیت ٹھیک ٹھیک آیت 24 کے مقابل میں ہے۔ اس میں جس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے اس کے ضد سے اس میں روکا گیا ہے اور لعلکم تشکرون میں جس شکر گزاری کا حق یاد دلایا گیا ہے۔ اس کے منافی رویہ سے اس میں باز رہنے کی تاکید ہے۔ ہم دوسرے مقام میں یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ شکر کی اصلی حقیقت خدا کا حق پہچاننا، اس کا اعتراف کرنا اور خلوص کے ساتھ اس کو ادا کرنا ہے۔ اس کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ ور سول سے سمعنا واطعنا کا اقرار کر کے بےوفائی اور غداری نہ کرے بلکہ ہر حال میں اس عہد کو ورا کرے۔ ہر عہد ایک امانت ہوتا ہے اس وجہ سے اس کی خلاف ورزی خفیہ ہو یا علانیہ، خیانت ہے۔ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ یہ اسی طرح کا اسلوب بیان ہے جو بقرہ 42 ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون، میں گزر چکا ہے، وہاں ہم بیان کرچکے ہیں کہ لائے نفی کا اعادہ نہ کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ حق اور باطل کو گڈ مڈ کرنا اخفائے حق کو مستلزم ہے، اسی طرح یہاں ہرچند یہ جملہ لا تخونوا اللہ والرسول کے تحت ہی ہے لیکن صرف نہی کا اعادہ نہیں فرمایا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ و رسول سے خیانت ہی ہے جو لوگوں کے لیے اپنی امانتوں اور ذمہ داریوں میں خیانت کے لیے راہ کھولتی ہے۔ لفظ امانت، پر ہم نساء آیت 58 کے تحت تفصیل سے بحث کر آئے ہیں کہ قرآن میں یہ لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ تمام حقوق اور ذمہ داریاں خواہ وہ کسی عہد و اقرار کے تحت عائد ہوئی ہوں یا حق اور ذمہ داری کے معروف فطری قانون کے تحت سمجھی اور مانی جاتی ہوں یا وہ صلاحیتیں اور نعمتیں ہوں جو انسان کو ودیعت ہوئی سب اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں فرمایا کہ جانتے بوجھتے ان امانتوں میں کوئی خیانت نہ کرو۔ وانتم تعلمون کا ٹکڑا یہاں جس سیاق میں ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ لوگ، جن کی طرف اشارہ ہے جانتے بوجھتے یہ حرکت کر رہے تھے اور مقصود اس ٹکڑے کے لانے سے ان کی مذمت ہے لیکن بجائے خود یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ شریعت میں کوئی فعلی جرم اسی وقت بنتا ہے جب اس کا ارتکاب علم و ارادے کے ساتھ کیا جائے
Top