Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 38
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ ہم نے بھیجے رُسُلًا : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے دیں لَهُمْ : ان کو اَزْوَاجًا : بیویاں وَّذُرِّيَّةً : اور اولاد وَمَا كَانَ : اور نہیں ہوا لِرَسُوْلٍ : کسی رسول کے لیے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : لائے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا : بغیر بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کی اجازت سے لِكُلِّ اَجَلٍ : ہر وعدہ کے لیے كِتَابٌ : ایک تحریر
اور یقینا ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں دیں اور ذریت بھی۔ اور کسی رسول کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ کوئی آیت لے آئے الا یہ کہ اللہ کا حکم ہو۔ ہر زمانہ کیلئے لکھے ہوئے احکام ہیں۔
آپ ﷺ سے پہلے جو رسول بھیجے گئے وہ اصحاب ازواج و اولاد تھے ‘ کوئی رسول اس پر قادر نہیں کہ خود سے کوئی معجزہ ظاہر کر دے : روح المعانی (ص 168 ج 13) میں لکھا ہے کہ یہودیوں نے آنحضرت ﷺ پر اعتراض کیا کہ ان کی تو بہت سی بیویاں ہیں جو شخص نبی ہو ‘ اسے نبوت کے کاموں سے اتنی فرصت کہاں کہ بہت ساری بیویاں رکھے ‘ اللہ تعالیٰ شانہ نے جواب میں ان سے تو خطاب نہیں فرمایا لیکن اپنے نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ سے پہلے ہم نے رسول بھیجے ہیں اور ان کو ہم نے بہت سی بیویاں دی تھیں اور بیویاں ہی نہیں ان کے اولاد بھی تھی بیویوں کا زیادہ ہونا اور صاحب اولاد ہونا یہ چیز نہ نبوت کے خلاف ہے نہ کار ہائے نبوت سے معارض ہے ‘ یہودیوں کو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے بارے میں علم تھا کہ ان کی بہت سی بیویاں تھیں اور وہ ان کے بارے میں نبی ہونے کا بھی عقیدہ رکھتے تھے پھر بھی انہوں نے بطور عناد اعتراض کیا اور کثرت ازواج کو مرتبہ نبوت کے خلاف کہا اس سے انہیں مشرکین کو بھی دین اسلام سے روکنا مقصود تھا اور خود اپنے لئے کفر پر جمے رہنے کا بھی ایک بہانہ تلاش کرلیا ‘ قرآن مجید نے اس انداز سے ان کا جواب دے دیا کہ آئندہ جو بھی کوئی شخص ایسا جاہلانہ اعتراض کرے اپنے اعتراض کا مسکت جواب پالے ‘ بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ کا کام قول سے بھی تعلیم دینا تھا اور عمل سے بھی ‘ اس لیے تو انسانوں کی طرف انسانوں کو نبی بنا کر بھیجا گیا ‘ نکاح کرنا انسانوں کی ضرورت کی چیز ہے جب نکاح ہوگا تو اولاد بھی ہوگی بیویوں کے ساتھ کس طرح گزارہ کیا جائے اور اولاد کی کس طرح تربیت کی جائے یہ سب باتیں بھی تو قولاً اور فعلاً بتانے اور سمجھانے کی ہیں ‘ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اگر مجرد یعنی غیر شادی شدہ ہوتے تو ان کی امتیں ازواجی زندگی کے طریقے کس طرح سیکھتیں پھر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تو آخری رسول ہیں سارے انسانوں کے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں آپ کی تعلیمات انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں خانگی حالات جاننے کی امت مسلمہ کو ضرورت تھی ان احوال کو حضرات ازواج مطہرات ؓ نے بیان کیا ‘ کثیر تعداد میں ان کی روایات کتب حدیث میں موجود ہیں ‘ اور یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ دلائل اور معجزات سے آنحضرت ﷺ کا رسول ہونا معلوم ہوگیا تو اس پر اعتراض ختم ہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کسی ایسی چیز کا ارتکاب نہیں کرسکتے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہ دی ہو۔ (وَ مَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ) (اور کسی رسول کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ کوئی آیت لے آئے الا یہ کہ اللہ کا حکم ہو) اس میں لفظ ” آیت “ کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے معجزہ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ طرح طرح کے معجزات کی جو معاندین فرمائشیں کرتے ہیں ان معجزات کا لانا نبی کی قدرت اور دسترس میں نہیں ہے ہاں اللہ تعالیٰ کا اذن ہو تو معجزہ ظاہر ہوسکتا ہے معجزہ کی تخلیق اور اعجاز اسی کے قبضہ میں ہے۔ اگر کسی نبی سے لوگوں نے فرمائشی معجزہ طلب کیا اور وہ پیش نہ کرسکا تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ اللہ کا نبی نہیں ‘ جو دلائل پیش کئے جا چکے ہیں اور جو معجزات ظاہر ہوچکے ہیں ان کے ہوتے ہوئے فرمائشی معجزات طلب کرنا محض ضد اور عناد تھا اور اللہ کے نبی کی تصدیق نہ کرنا یہ کفر ہے ‘ کوئی نبی بےدلیل اور بےمعجزہ نہیں گزرا اور فرمائشی معجزہ ظاہر کرنا اللہ تعالیٰ اس کے پابند نہیں ہیں۔ بعض حضرات نے لفظ ” آیۃ “ سے احکام مراد لیے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ یہ جو کہتے ہو کہ احکام میں نسخ کیوں ہوا پہلی امتوں کے جو احکام تھے وہ پورے کے پورے اس امت کے لیے کیوں باقی نہ رکھے گئے یا اس امت کے لیے جو احکام جاری کئے گئے تھے ان کو بعد میں منسوخ کیا گیا اور ان کی جگہ دوسرا حکم کیوں آیا یہ جاہلانہ اعتراض ہے ‘ اللہ کا کوئی نبی اپنے پاس سے کوئی حکم نہیں لاسکتا اپنی حکمت کے موافق اللہ تعالیٰ احکام جاری فرما دیتا ہے پھر منسوخ فرما دیتا ہے نبی کو کوئی اختیار نہیں کہ اپنے پاس سے بدل دے یا منسوخ کر دے ‘ مخالفین جو یہ چاہتے ہیں کہ نبی ہماری مرضی کے مطابق حکم لائے یہ سفاہت اور ضلالت ہے ‘ سورة یونس میں فرمایا (قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَآءِ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ) ۔ (لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ) (ہر زمانہ کے لئے لکھے ہوئے احکام ہیں) یعنی گزشتہ امتوں کو جو احکام دئیے گئے وہ بھی حکمت کے مطابق تھے اور ان کے احوال کے مناسب تھے اور اب جو اس امت کو احکام دئیے جا رہے ہیں وہ بھی حکمت کے مطابق ہیں اور ان کے حالات کے مناسب ہیں۔
Top