Mualim-ul-Irfan - Adh-Dhaariyat : 47
وَ اُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ١ؕ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ
وَاُدْخِلَ : اور داخل کیے گئے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّهِمْ : اپنا رب تَحِيَّتُهُمْ : ان کا تحفہ ملاقات فِيْهَا : اس میں سَلٰمٌ : سلام
اور آسمان کو بنایا ہے ہم نے قوت کے ساتھ اور بیشک ہم سب قدرت رکھنے والے ہیں
ربط آیات وقوع قیامت اور جزائے عمل کے سلسلہ میں اللہ نے مجرموں کو سزا یابی کے کئی واقعات بیان فرمائے اور یاددلایا کہ اہل ایمان کے لیے یہ نشانیاں ہیں ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں نافرمانوں کو سزا دی اس طرح وہ آخرت میں بھی گرفت کرنے پر قادر ہے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب الیم سے خوف کھاتے ہیں ، وہ ایمان لانے اور نیکی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آسمان کی تخلیق مسئلہ جزائے عمل کی وضاحت کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا ذکر کیا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلیل بنتی ہے ارشاد ہوتا ہے والسماء بینھما بایید اور ہم نے آسمان کو قوت کے ساتھ پیدا کیا ۔ اتنے لمبے چوڑے اور وسیع آسمان کی تخلیق اور وہ بھی بغیر ستونوں کے ، قدرت کاملہ کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اید کا معنی ہاتھ ہیں جو انسانی قدرت کا مظہر ہوتے ہیں اور اسی سے مراد قوت ہے ، جیسا کہ سورة ص میں اللہ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا ۔ واذ کر عبدنا دائود ذالاید (آیت : 17) ہمارے بندے دائود (علیہ السلام) کا تذکرہ کریں ۔ جو کہ ہاتھوں والے یعنی قوت والے تھے ، بہر حال اید سے مراد قوت یا طاقت ہے جس کے ذریعے اللہ نے آسمان کو پیدا فرمایا ۔ اس تذکرے سے مراد یہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ آسمان جیسی وسیع و عریض چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہے ، وہ کسی انسان مجرم کو گرفت کرنے پر کیوں قادر نہیں جب کہ انسان کی حیثیت ہی آسمان کے مقابلے میں کیا ہے ؟ مگر اس کا حال یہ ہے کہ یہ غرور وتکبر کی بناء پر اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے ، اور وقوع قیامت اور جزائے عمل کا انکار کردیتا ہے۔ فرمایا آسمان کی تخلیق کوئی بڑی بات نہیں ہے وانا لموسعون ہم ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں ، ہم اس سے بھی بڑی چیزیں پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ زمین کا فرش پھر فرمایا والارض فرشنھا دیکھو ! ہم نے زمین کو کس طرح سے بچھا دیا ہے فننعم المھدون پس ہم بہت ہی خوب زمین کو بچھانے والے ہیں اللہ تعالیٰ نے زمین کی ہیئت اس طرح کی بنائی ہے کہ یہ انسان اور دیگر جانداروں کی تمام ضروریات پوری کرتی ہے تمام جانداروں کی خوراک زمین سے ہی پیدا ہوتی ہے اس کی سطح ایسی نرم ہے کہ اس میں آسانی کے ساتھ کاشتکاری ہو سکتی ہے جس سے پھل پھول اور اناج پیدا ہوتا ہے ۔ اگر یہ زمین زیادہ سخت ہوتی تو کھیتی باڑی نہ ہو سکتی اور اگر زیادتی نرم ہوتی تو اس ٹکنا مشکل ہوجاتا ، غرضیکہ اللہ نے اس کو زمینی مخلوق کی مصلحت کے عین مطابق بنایا ہے۔ اس مقام پر زمین کی جس خاص خوبی کا ذکر کیا گیا ہے وہ فرشنھا سے ظاہر ہے یعنی اس کی سطح ہموار ہے جس کی وجہ سے لوگ اس پر آسانی سے چلتے پھرتے ، کاروبار کرتے ، عمارات تعمیر کرتے اور اسی پر سوتے ہیں ۔ اگر یہ ہموار نہ ہوتی تو اس پر کاروبار حیات کو جاری رکھنا مشکل ہوجاتا ۔ اگرچہ یہ زمین ہمیں بظاہر سطح نظر آتی ہے ۔ مگر جدید سائنسی تحقیق کے مطابق زمین چپٹی نہیں بلکہ گیند کی طرح گول ہے۔ اور شمالی اور جنوبی قطبین کے قریب پچ کی ہوئی ہے ، تا ہم اپنی وسعت کی وجہ سے یہ گول کی بجائے چپٹی محسوس ہوتی ہے۔ آج کل سائنسدان خلائی سفر پر جا رہے ہیں فضا سے لی گئی زمین کی تصویر میں زمین بالکل گیند کی طر ح گول نظر آتی ہے جس طرح ہمیں زمین سے چاند اور سورج گول دکھائی دیتے ہیں ، اسی طرح خلاء سے زمین بھی گول ہی نظر آتی ہے۔ بہر حال فرمایا کہ ہم نے زمین کو بچھا دیا اور ہم اس کو خوب بچھانے والے ہیں ۔ ہر چیز کا جوڑا آگے اللہ نے اپنی ایک اور قدرت کا تذکرہ فرمایا ہے ومن کل شی خلقنا زوجین اور ہم نے ہر چیز سے جوڑا پیدا کیا ہے۔ انسانوں اور دیگر جاندار مخلوق میں تو ہم ہر جنس کے جوڑے جوڑے کا مشاہدہ کر رہے ہیں تا ہم سائنسدان بتلاتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے کیڑے مکوڑے سے لیکر سمندر کی بڑی سے بڑی مخلوق تک ہر چیز کو اللہ نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے ، حتیٰ کہ علم نبایات والوں کی تحقیق یہ ہے کہ اللہ نے تمام نباتات کو بھی جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے ، نر و مادہ کے جوڑے سے ہی آگے حیوانات یا نباتات کی نسلی چلتی ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ زوجین سے مراد متضاد چیزیں ہیں یعنی ہر وہ چیز زوجین کہلا سکتی ہے جو اپنا مد مقابل رکھتی ہے۔ مثلاً نور و ظلمت یا لیل و نہار آپس میں متضاد ہیں اور جوڑا جوڑا ہیں ۔ اسی طرح خشکی اور تری ، ارض و سما ، میدان اور پہاڑ ، بحرو بر زوجین میں شمار کیے جاسکتے ہیں ۔ صفات میں سعادت اور شقاوت ، کفر اور ایمان بھی زوجین ہیں ۔ گرمی اور سردی ، حلم اور قہر ، بہادری اور بزدلی ، بخل اور سخاوت ، حق اور باطل میٹھا اور کڑوا ، صحت اور بیماری ، غنی اور فقر ، ضحک اور بکا ، فرحت اور غم ہوت اور حیات ، دنیا اور عقبی وغیرہ سب زوجین میں شمار ہوتی ہیں ۔ اگر انسان ان چیزوں میں غور و فکر کریں تو اللہ کی قدرت اور اسکی وحدانیت سمجھ میں آسکتی ہے لعلکم تذکرون تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ دعوت الی التوحید اس سورة میں دین کے بنیادی عقائد قرآن کریم کی حقانیت ، توحید ، رسالت اور وقوع قیامت کا ذکر بھی آ رہا ہے ، چناچہ یہاں پر دعوت الی التوحید کے ضمن میں ارشاد فرمایا ہے ففروا الی اللہ پس اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑو۔ مراد یہ ہے کہ ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ کی طرف رجوع کرو۔ اسی کی عبادت کرو اور اسی کے ساتھ اپنا تعلق درست کرو ۔ حنفاء للہ غیر مشرکین بہ ( الحج : 31) حنیف بن جائو اور مشرک نہ بنو ، کفر ، شرک اور معصیت کو چھوڑ دو اور ساتھ اپنے پیغمبر کی زبان سے یہ بھی کہلوایا انی لکم منہ نذیر مبنی میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھول کر ڈر سنانے والا ہوں ۔ میں خدا کا رسول ہوں اور مجھے انداز کا حکم دیا گیا ہے ۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کرتے ہیں کفر اور شرک کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، میں ان کو ان کے برے انجام سے آگاہ کر رہا ہوں۔ اللہ کا نبی تاکید ا ًفرماتا ہے ولا تجعلوا مع اللہ الھا اخر اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ ٹھہرائو ، کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ سمجھو کسی کی نذر و نیاز نہ دو ۔ اللہ کے سوا نہ کوئی خالق ہے نہ مالک ، نہ قادر مطلق ہے اور نہ علیم کل وہی متصرف اور مدبر ہے ، وہی قدرت تامہ کا مالک ہے اور مستحق عبادت ہے ، لہٰذا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور دوبارہ سن لو انی لکم منہ نذیر مبین بیشک میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کھول کر ڈر سنانے کے لیے آیا ہوں ۔ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے خلاف چلو گے تو انجام بہت برا ہوگا ۔ انکار رسالت اگلی آیت میں اللہ نے منکرین رسالت کا تذکرہ فرمایا ہے کذلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول اسی طریقے سے نہیں آیا ان سے پہلے لوگوں کے اس کوئی رسول الا قالوا ساحر او مجنون مگر انہوں نے یہی کہا کہ یہ شخص جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ فرمایا یہ صرف مکہ اور عرب کے مشرکین کی بات نہیں بلکہ جس قوم میں بھی اللہ کا کوئی رسول آیا انہوں نے انکار ہی کیا ۔ انہوں نے اللہ کے نبی کی بات پر کبھی غور ہی نہ کیا اور جب انہوں نے اللہ کا پیغام سنایا تو اسے حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا ۔ فرمایا اتوا صوابہ کیا تمہیں پہلے لوگ وصیت کر گئے تھے کہ ان کی طرح تم بھی اللہ کے رسولوں کا انکار کردینا ، اور کیا تم انہی کی وصیت پر عمل کر رہے ہو ؟ جب قوم نوح کا بوڑھا آدمی قریب المرگ ہوتا تو وہ دوسروں کو وصیت کرجاتا کہ دیکھنا کہیں نوح (علیہ السلام) کی بات کو نہ مان لینا ورنہ وہ تمہیں تمہارے ابائو اجداد کے دین سے پھیر دے گا ۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ بل ھم قوم طاغون کہ وہ سر کش لوگ تھے جو توحید و رسالت کا انکار کرتے تھے ۔ یہ ان کی سر کشی کا نتیجہ تھا کہ اللہ کے نبی کو ساحر اور مجنون کا خطاب دے دیا ۔ العیاذ باللہ ۔ تسلی کا مضمون آگے اللہ نے اپنے پیغمبر کو تسلی دلائی ہے فتول عنھم آپ ایسے منکرین توحید و رسالت سے منہ پھیر لیں ، ان کی طرف زیادہ توجہ نہ دیں فما انت بملوم آپ پر کچھ ملامت نہیں ۔ اگر یہ لوگ فتنہ پردازی کرتے ہیں ، افتراء باندھتے ہیں ، اکڑ دکھاتے ہیں تو آپ اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے سمجھا دیں اور اس کے بعد ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ آپ اس بات کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لائے۔ آپ کا فرض یہ ہے بلغ ما انزل الیک من ربک ( المائدہ : 67) جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ اس کو ان لوگوں تک پہنچا دیں ، اس کے بعد ماننا نہ ماننا ان کی ذمہ داری ہے اور قیامت والے دن انہی سے سوال ہوگا کہ میرے پیغام کے ساتھ تم نے کیا سلوک کیا آپ اپنا فریضہ ادا کردیں اور بس ۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا وذکر آپ ان کو نصیحت کردیں فان الذکری تنفع المومنین بیشک یہ نصیحت ایمانداروں کو ضرور فائد ہ دے گی ۔ البتہ سرکش اور شرارتی لوگ اس نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ جب آپ ان لوگوں کے سامنے اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کریں گے ، ثواب و عقاب کی بات پیش کریں گے ۔ شیطان کے ورغلانے کی بات کریں گے تو انہیں غور و فکر کا موقع ملے گا ۔ پھر جن کے دل میں ایمان کا جذبہ موجود ہوگا وہ اس سے مستفید ہو کر راہ راست پر آجائیں گے ، اور جو ایمان سے یکسر خالی ہوں گے ۔ ان پر آپ کی نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوگا۔ اسی نصیحت ہی کے ضمن میں ایک عرب شاعر دنیا کی بےثباتی اور انسان کی بےبسی کے متعلق کہتا ہے ؎ کل بن انثی وان طالت سلامتہ لا بد یوما ً علی الۃ الحدباء محمول حوا کا بیٹھا کتنی بھی صحت و سلامتی میں ہو مگر ایک دن اسے ٹیڑھے آلے یعنی جنازے کی چارپائی پر سوار ہونا ہی پڑے گا ۔ یلیت شعری وھم العرء ینصبہ ولیس لہ فی العیش تحذیر کاش کہ مجھے معلوم ہو کہ انسان کو موت کی فکر کس قدر غم میں ڈالتی ہے مگر انسان کو زندگی میں موت سے بچانے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ علامہ اقبال (رح) نے بھی کہا ہے۔ آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھنا دم دے نہ جائے ہستی نا پائیدار دیکھان ہماری مثال تو چنگاری جیسی ہے جو ابھی سلگ رہی ہے مگر عنقرب بجھ جائیگی اور ظاہر ہے کہ موت لازماً آنے والی ہے ، جس سے کسی طرح بھی مفر نہیں مقصد یہ ہے کہ دنیا کی ناپائیداری کی اس طرح کی باتیں نصیحت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ پھر قیامت کی ہولناکیوں اور جزائے عمل کی منزل کا تذکرہ بھی انسان کے لیے باعث نصیحت ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی باتیں ایمان والوں کے لیے یقینا مفید ہوں گے۔ ان تمام چیزوں کا تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے ، لہٰذا ان باتوں کی نصیحت کرتے ہیں۔
Top