Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 30
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ؕ قَالُوْا خَیْرًا١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ١ؕ وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَۙ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا : ان لوگوں سے جنہوں نے پرہیزگاری کی مَاذَآ : کیا اَنْزَلَ : اتارا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے خَيْرًا : بہترین لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو لوگ اَحْسَنُوْا : بھلائی کی فِيْ : میں هٰذِهِ : اس الدُّنْيَا : دنیا حَسَنَةٌ : بھلائی وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر وَلَنِعْمَ : اور کیا خوب دَارُ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا گھر
اور جو لوگ کفر و شرک سے بچتے ہیں ان سے کہا گیا کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ؟ انہوں نے کہا کہ بڑی خیر نازل فرمائی، جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھے کام کیے ان کے بھلائی ہے اور بلاشبہ دار آخرت بہتر ہے، اور البتہ متقیوں کا گھر اچھا ہے
اہل تقویٰ کا اچھا انجام، انہیں جنت کے باغوں میں وہ سب کچھ نصیب ہوگا جو ان کی خواہش ہوگی گزشتہ آیات میں کافروں کے مکر اور آخرت میں جو انہیں عذاب ہوگا اور رسوائی ہوگی اس کا ذکر تھا اور اس بات کا بھی ذکر تھا کہ فرشتے ایسی حالت میں ان کی جانیں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، ان آیات میں اہل ایمان کے اچھے اعمال اور اچھے اقوال کا تذکرہ فرمایا اور انہیں بشارت دی کہ وہ ایسے باغوں میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور ان باغیچوں میں ان کی خواہش کے مطابق سب کچھ موجود ہوگا جو بھی چاہیں گے وہ سب ملے گا، سورة زخرف میں فرمایا (وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ ) (اور وہاں وہ چیزیں موجود ہوں گی جن کی ان کے نفسوں کو خواہش ہوگی اور جن سے آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی) ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کو اسی طرح بدلہ عطا فرماتا ہے، تقویٰ میں ہر چیز آگئی شرک و کفر سے بچنا اور تمام گناہوں سے بچنا لفظ تقویٰ ان سب کو شامل ہے متقی حضرات کی موت کے وقت کی حالت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ فرشتے ان کی روحیں اس حال میں قبض کریں گے کہ یہ لوگ پاکیزہ ہوں گے جس کا دل کفر و شرک سے پاک ہو اور دل میں ایمان کی نورانیت ہو اور اس کا ظاہر اعمال صالحہ سے مزین ہو ظاہر ہے کہ موت کے وقت بھی اس کی حالت اچھی ہوگی، فرشتے بھی ان سے اچھا معاملہ کرتے ہیں اور انہیں اس وقت سلام پیش کرتے ہیں اور جنت کی بھی بشارت دے دیتے ہیں، دنیا سے ایمان پر رخصت ہونا اور اچھے اعمال لے کر جانا یہ جنت میں جانے کا سبب ہے، جنت کا حقیقی داخلہ تو قیامت کے دن ہوگا لیکن موت کے وقت اس کی خوشخبری بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ فی معالم التنزیل ص 66 ج 3 طیبین مومنین طاھرین من الشرک، قال مجاھد زکیۃ افعالھم واقوالھم وقیل معناہ ان وفاتھم تقع طیبۃ سھلۃ فائدہ : چند آیات پہلے فرمایا تھا (وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) اور یہاں ان آیات میں فرمایا (وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ قَالُوْا خَیْرًا) مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان دونوں آیتوں کا سبب نزول ایک ہی ہے جس کا کچھ تذکرہ آیت (کَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ ) کے ذیل میں گزر چکا ہے اور وہ یہ کہ مکہ معظمہ کے مشرکین نے یہ مشورہ کیا کہ اس شہر میں آنے والوں کو رسول اللہ ﷺ سے دور رکھنے کے لیے مختلف راستوں پر بیٹھ جاؤ جب اس پر عمل کیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ جس کسی قبیلے کا کوئی نمایندہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھتا تو جھوٹی باتیں کرکے اسے وہیں سے برگشتہ کرتے تھے جب وہ لوگ اپنی قوم میں واپس ہوتے اور ان کی قوم کے لوگ دریافت کرتے کہ کیا معلوم کرکے آئے ہو تو یہ نمائندہ انہیں راستوں پر بیٹھنے والوں کا قول نقل کردیتا تھا اور کہہ دیتا تھا (اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) (کہ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیاں ہوتی ہیں) اور ان نمائندوں میں سے جو شخص یہ طے کر ہی لیتا کہ مجھے اصل بات کا پتہ چلانا ہی ہے تو وہ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آتا تھا اور حضور اقدس ﷺ تک پہنچ ہی جاتا تھا یہ شخص مکہ معظمہ میں داخل ہوجاتا اور مومنین سے ملاقات کرتا اور آنحضرت سرور عالم ﷺ کے بارے میں دریافت کرتا تو اہل ایمان جواب میں کہتے تھے کہ آپ کی دعوت حق ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آپ پر خیر نازل فرمائی ہے مومنین کا جواب سن کر یہ نمائندہ مطمئن ہوجاتا اور پھر واپس جاکر اپنی قوم کو مطمئن کردیتا تھا۔
Top