Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 96
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ١ؕ وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَا : جو عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس يَنْفَدُ : وہ ختم ہوجاتا ہے وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَاقٍ : باقی رہنے والا وَلَنَجْزِيَنَّ : اور ہم ضرور دیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَبَرُوْٓا : انہوں نے صبر کیا اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تمہارے پاس جو کچھ ہے ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے، اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم انہیں ضرور ضرور ان کے اچھے کاموں کے عوض دیدیں گے
آخرت کی نعمتیں باقی رہنے والی ہیں، صبر کرنے والے مردوں اور عورتوں کو حیات طیبہ نصیب ہوگی اور ان کے اعمال کا اچھا اجر ملے گا یہ دو آیتوں کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں یہ بتایا کہ جتنی دنیا بھی کمالو گے وہ سب ختم ہوجائے گی اور اعمال صالحہ پر (جس میں گناہوں سے بچنا اور نقض عہد سے بچنا بھی شامل ہے) جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں انعام ملے گا اور وہاں جو اکرام ہوگا وہ سب باقی رہنے والا ہے (اس میں ان لوگوں کو خاص تنبیہ ہے جو عہد توڑ کر اس کے عوض مال لے لیتے ہیں اور دنیاوی اعزاز حاصل کرلیتے ہیں۔ ) جب دنیا سامنے آنے لگتی ہے اور جاہ و مال کے منافع نفس کو متاثر کرنے لگتے ہیں اور آدمی کو ابھارتے ہیں کہ تو قسم توڑ دے یا ایسا گناہ کرلے جس سے مال اور جاہ کا نفع ہوتا ہو تو اس وقت دنیاوی منافع کو نہ دیکھے، شیطان کے ورغلانے سے بچ جانا اور نفس کے وسوسے کو ٹھکرا کر حکم شرعی پر جمے رہنا بری بات ہے۔ (مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ ) میں یہ بتایا کہ دنیاوی منافع کے لیے عہود اور قسموں کو جو توڑتے ہو اور حرام ذریعوں سے پیسہ حاصل کرتے ہو اس کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بناؤ۔ دنیا میں جو کماؤ گے وہ ختم ہوجائے گا اس کی وجہ سے آخرت کی نعمت سے محروم نہ ہو، وہاں جو کچھ ہے ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والا ہے۔ فانی دنیا کے لیے باقی رہنے والی نعمتوں سے محروم رہنا سمجھ داری کی بات نہیں ہے، باقی رہنے والی نعمتوں کی طرف دوڑو اور انہی کے لیے عمل کرو۔ چونکہ رشوت سے بچنے میں نفس کو تکلیف ہوتی ہے اور حرام چھوڑ کر صبر کرنا پڑتا ہے اس لیے ساتھ ہی یوں بھی فرمایا (وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) اس میں جو (الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا) فرمایا اس میں ان کی استقامت اور ثابت قدمی کی طرف اشارہ فرما دیا کہ وہ دنیاوی منافع سامنے آنے پر بھی ایمان تقاضوں پر جمے رہے اور دنیا کی وجہ سے کسی عہد کو نہیں توڑا، پیچھے سے گو نقض عہد کا ذکر ہے لیکن الفاظ کے عموم نے بتادیا کہ جو صبر کرے گا راہ حق پر جمے گا اسے ضرور اچھے سے اچھا اجر ملے گا۔
Top