Anwar-ul-Bayan - Maryam : 22
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا
فَحَمَلَتْهُ : پھر اسے حمل رہ گیا فَانْتَبَذَتْ : پس وہ چلی گئی بِهٖ : اسے لیکر مَكَانًا : ایک جگہ قَصِيًّا : دور
سو اس لڑکے سے وہ حاملہ ہوگئی اور لہٰذا اس حمل کو لیے ہوئے علیحدہ ہو کر دور چلی گئی
حمل اور وضع حمل کا واقعہ، دردزہ کی وجہ سے کھجور کے درخت کے نیچے پہنچنا فرشتہ کا آواز دینا کہ غم نہ کرو درخت کا تنا ہلاؤ تر کھجوریں کھاؤ (فَحَمَلَتْہُ فاَنْتَبَذَتْ بْہٖ مَکَانًا قَصِیًّا) (سو اس لڑکے سے وہ حاملہ ہوگئی۔ لہٰذا وہ اس حمل کو لیے ہوئے علیحدہ ہو کر دور چلی گئی) سورة تحریم میں فرمایا (وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ ) (اور اللہ عمران کی بیٹی مریم کا حال بیان فرماتا ہے جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا سو ہم نے اس کے گریبان میں اپنی روح پھونک دی اور انھوں نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت والوں میں سے تھیں) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے پھونکنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے اس پھونکنے سے حمل قرار پا گیا۔ حمل قرار پانے کے بعد وہ اس حمل کو لیے ہوئے اپنے گھر سے کسی دور جگہ میں چلی گئیں پھر جب دردزہ یعنی پیدائش کا درد شروع ہوا تو اس کی وجہ سے کھجور کے درخت کے پاس آگئیں اور اس کے تنہ کے قریب یا اس سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور اسی حالت میں کہنے لگیں کہ ہائے کاش میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل ہی بھولی بسری ہوجاتی نہ کوئی جانتا نہ پہچانتا، اس وقت پریشانی کا عالم تھا جنگل تھا تنہائی تھی درد سے بےچین تھیں کوئی چھپر تک نہیں تھا جس میں لیٹیں اور یہ بھی خیال لگا ہوا تھا کہ بچہ پیدا ہوگا تو لوگ کیا کہیں گے ایسی پریشانی میں منہ سے یہ بات نکل گئی کہ کاش میں اس سے پہلے مردہ ہوچکی ہوتی، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ استقرار حمل کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ولادت ہوگئی (ذکرہ فی معالم التنزیل عنہ) آیت کریمہ کے سیاق سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دیگر حاملہ عورتوں کی طرح ان پر حمل کی مدت نہیں گزری کیونکہ اتنی لمبی مدت تک تنہا اکیلی عورت کا گھر سے باہر اور دور رہنا بعید ہے پھر اگر لمبی مدت ہوتی تو حمل کا ظاہر ہونا اور اندر پیٹ میں پرورش پانا اس سے لوگوں کو ولادت سے پہلے ہی حاملہ ہوجانے کا پتہ چل جاتا اور لوگوں کا طعن اور اعتراض شروع ہوجاتا لیکن قرآن کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ بچہ کو لے کر آئیں اس وقت لوگوں نے اعتراض کیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top