Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعضے لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخری دن پر ایمان لائے۔ حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں۔
منافقین کی تاریخ اور نفاق کے اسباب جب سرور عالم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے اور دین اسلام خوب پھیلنے لگا تو یہودیوں اور خاص کر ان کے علماء اور احبار کو یہ بات زیادہ کھلی اور یہ لوگ دشمنی پر اتر آئے۔ کچھ لوگ اوس اور خزرج میں سے بھی اسلام کے مخالف ہوگئے۔ اسلام کی اشاعت عام ہوجانے کے بعد کھل کر یہ لوگ مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اور دشمنی کے اظہار سے بھی عاجز تھے۔ اس لیے انہوں نے یہ چال چلی کہ ظاہری طور پر اسلام قبول کرلیا، اندر سے کافر تھے اور ظاہر میں مسلمان تھے۔ ان کا سردار عبداللہ ابن ابی تھا۔ حضور اقدس ﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے اوس اور خزرج نے عبداللہ بن ابی کو اپنا بادشاہ بنانے اور اس کو تاج پہنانے کا مشورہ کیا تھا۔ سید العالمین ﷺ کے ہوتے ہوئے کسی کی سرداری نہیں چل سکتی تھی اس نے اور اس کے ساتھیوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر کے اپنے کو مسلمانوں میں شمار کرا دیا اور اندر سے اسلام کی کاٹ میں لگے رہے۔ ان کے اس طریقہء کار میں یہ راز پوشیدہ تھا کہ اسلام قبول کرنے پر جو منافع ہیں وہ بھی ملتے رہیں اور کنبے اور قبیلے سے باہر بھی نہ ہوں اور اہل کفر سے بھی گٹھ جوڑ رہے اور ان سے بھی فائدہ ملتا رہے۔ اور یہ بھی پیش نظر تھا کہ اگر العیاذ باللہ اسلام اور داعی اسلام ﷺ کا قیام اور بقا زیادہ دیر تک نہ رہے تو حسب سابق پھر سرداری مل جائے گی لہٰذا یہ اوپر سے مسلمان اور اندر سے کافر رہے اور اسلام اور داعی اسلام کی ناکامی کے انتظار میں رہنے لگے۔ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہم مؤمن ہیں اور اس طرح سے اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے تھے۔ اور خالص کافروں سے تنہائیوں میں ملتے تھے تو کہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ لوگ اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے لیے نمازیں بھی پڑھتے تھے لیکن چونکہ دل سے نمازی نہ تھے، اس لیے جماعتوں کی حاضری میں سستی کرتے تھے، اور اکساتے ہوئے اوپر کے دل سے نماز پڑھتے تھے جہادوں میں بھی شریک ہونے کے لیے ساتھ لگ جاتے تھے لیکن کبھی تو درمیان سے واپس آگئے اور کبھی ساتھ رہتے ہوئے ہی مکروفریب کو کام میں لاتے رہے۔ حضرت سرور عالم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو تکلیفیں پہنچانے اور دل دکھانے کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ جھوٹی قسمیں کھا کر کہتے تھے اور قسم کھا جاتے تھے کہ ہم نے تو نہیں کہا۔ ان لوگوں کے حالات سورة بقرہ کے دوسرے رکوع میں اور سورة نساء کے رکوع 21 میں اور سورة منافقون میں اور سورة حشر میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور سورة برأۃ میں خوب زیادہ ان کی قلعی کھولی گئی ہے۔ سیرت کی کتابوں میں ان لوگوں کے نام بھی لکھے ہیں کہ یہ کون کون تھے اور کس قبیلہ سے تھے۔ البدایہ والنہایہ اوائل کتاب المغازی ص 336 ج 3 تا ص 340 میں یہودی علماء اور احبار جنہوں نے اسلام اور داعی اسلام ﷺ کی کھل کر مخالفت اختیار کی اور خوب زیادہ دشمنی میں لگ گئے، ان کے نام اور ان لوگوں کے نام جو یہودیوں اور اوس و خزرج میں سے منافق بنے ہوئے تھے واضح طور پر ذکر کئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ مروت کا برتاؤ فرماتے رہے اور ان کی ایذاؤں کو سہتے رہے، آپ احسن اسلوب سے اپنی دعوت کو لے کر آگے بڑھتے رہے اور دین اسلام کو برابر ترقی ہوتی رہی۔ اس میں جہاں یہ حکمت تھی کہ شاید یہ لوگ مخلص مسلمان ہوجائیں وہاں یہ مصلحت بھی تھی کہ اگر ان کے ساتھ سختی کریں گے تو عرب کے دوسرے قبائل جو مسلمان نہیں ہوئے ہیں اور صحیح صورت حال انہیں معلوم نہیں وہ اسلام کے قریب آنے کے بجائے اور دور ہوجائیں گے۔ اور شیطان ان کو یہ سمجھائے گا کہ دیکھو محمد ( رسول اللہ ﷺ کا اپنے ماننے والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہے۔ بالآخر ایک دن وہ آیا کہ یہ لوگ سختی اور ذلت کے ساتھ مسجد نبوی سے نکال دیے گئے۔ جس کی تفصیل سیرۃ ابن ہشام (جلد ثانی کے اوائل) میں مذکور ہے۔ مذکورہ بالا آیات میں اور ان کے بعد والی چند آیتوں میں منافقین کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اوّل تو یہ فرمایا کہ یہ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر بھی ایمان لائے۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ سرا سر جھوٹ ہے۔ یہ اہل ایمان نہیں ہیں۔ ایمان فعل قلب ہے۔ صرف زبانی دعویٰ سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوگا۔ جب تک دل سے ان چیزوں کی تصدیق نہ کرے جو اللہ نے اپنے نبیوں کے ذریعہ بتائی ہیں اور جن پر ایمان لانے کا حکم فرمایا ہے اس وقت تک کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا۔ منافقین کے اسی دوغلے پن کو کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں۔ حالانکہ مومن نہیں۔ سورة مائدہ میں اس طرح بیان فرمایا : (مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ) (یعنی یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے مونہوں سے کہا کہ ہم ایمان لائے اور حال یہ کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے) اس دورنگی اور دوغلے پن کو قرآن و حدیث میں نفاق اور منافقت سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ان کو منافق فرمایا گیا ہے۔ یہ کلمہ لفظ ” نَفَقْ “ سے ماخوذ ہے۔ نفق اس سرنگ کو کہتے ہیں۔ جس میں دونوں طرف سے راستہ ہو چونکہ منافقین اسلام میں ایک دروازہ سے داخل ہوتے ہیں اور دوسرے دروازہ سے نکل جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے اس عمل کا نام نفاق رکھا گیا۔ مفردات امام راغب میں ہے : و منہ النفاق و ھو الدخول فی الشرع من باب و الخروج عنہ من باب و علی ذلک نبہ تعالیٰ بقولہ ان المنافقین ھم الفاسقون ای الخارجون من الشرع۔ منافقت کفر کی بد ترین اور خبیث ترین قسم ہے۔ اس میں کفر بھی ہے، جھوٹ بھی ہے۔ دھوکہ دہی بھی ہے۔ ایسے لوگ صرف بندوں ہی کو دھوکہ نہیں دیتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور ایمان اور اہل ایمان کا مذاق بناتے ہیں اور جو کھلے کافر ہیں ان کو بھی دھوکہ دیتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ وہ کسی میں سے نہیں جس کو سورة نساء میں یوں بیان فرمایا ہے : (یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ) ” یعنی وہ لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو بس تھوڑا بہت یاد کرتے ہیں، ایمان اور کفر کے درمیان مذبذب ہیں نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف “ وجہ اس کی یہ ہے کہ منافق کسی کا نہیں ہوتا وہ صرف اپنا ہوتا ہے۔ جہاں دنیا اور دنیاوی منافع دیکھتا ہے موقعہ دیکھ کر اسی طرف ہوجاتا ہے۔ اور اتنے ہی وقت کے لیے ہوتا ہے جتنے وقت تک ضرورت محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی مثال ایسی ہے۔ جیسے بکریوں کے دو ریوڑوں کے درمیان ایک بکری ہے وہ گابھن ہونے کے لیے کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے۔ (مشکوٰۃ ص 17) منافقین اپنے اس عمل کو چالبازی اور ہوشیاری سمجھتے ہیں کہ ہم نے خوب اللہ تعالیٰ اور مومنین کو دھوکہ دیا اور اپنا کام نکالا۔ حالانکہ اس دھوکہ دہی اور چالبازی کا برا انجام خود انہی کے سامنے آئے گا۔ اور یہ چالبازی انہیں کے لیے وبال جان بنے گی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خوب سمجھتے ہیں حالانکہ اپنے اصل نفع اور نقصان تک کو نہیں سمجھتے۔ نفاق کا مرض بہت پرانا ہے اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ زمانہء نبوت کے منافقین اس مرض میں مبتلا تھے۔ جیسے جیسے اسلام آگے بڑھتا گیا منافقوں کا نفاق بھی بڑھتا رہا، مرض نفاق حسد اور حب دنیا کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، دنیا میں ایسا شخص ذلیل ہوتا ہے اور آخرت میں منافق کے لیے سخت سزا ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا کہ نفاق رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھا آج تو یا اسلام ہے یا کفر ہے۔ ان کا یہ ارشاد امام بخاری نے نقل کیا ہے۔ شراح حدیث نے فرمایا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ چونکہ ہم دلوں کا حال نہیں جانتے اس لیے ہم کسی مدعی اسلام کو یوں نہیں کہیں گے کہ یہ منافق ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کے منافقوں کے نفاق کا علم تھا اس لیے متعین طریقے پر ان کو منافق قرار دیا گیا، ہم ظاہر کے مکلف ہیں جو شخص کہے گا میں مسلمان ہوں، اس کو مسلمان سمجھیں گے جب تک کہ اس سے کفر کا کوئی کلمہ یا کفر کا کوئی کام صادر نہ ہو اگر کسی کے بارے میں اندازہ ہو کہ یہ ظاہر میں مسلمان بنتا ہے، اندر سے مسلمان نہیں ہے اسے منافق کہے بغیر اپنی حفاظت کریں گے۔
Top