Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
وَ مِنَ النَّاسِ ( اور لوگوں میں سے) ابو عمرو سے النَّاسِ کے فتحہ کا امالہ موضع جرمین جہاں بھی آئے مروی ہے وصل اور وقف میں ان سے خلاف مروی ہے۔ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَ بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ( بعض ایسے بھی ہیں جو منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم خدا اور روزآخرت یعنی قیامت پر ایمان لائے) یہ آیت عبد اللہ بن ابی سلول اور معتب بن قشیر اور جد بن قیس اور ان کے رفقاء کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں اکثر تو یہودی تھے اور بعض منافق۔ نَاساصل میں اناس تھا ہمزہ کو حذف کرکے اس کے عوض حرف تعریف یعنی الف لام لے آئے اسی وجہ سے ہمزہ اور حرف تعریف ایک کلمہ میں جمع نہیں ہوسکتے ( کیونکہ عوض اور معوض میں اجتماع ناجائز ہے) یہ جمع ہے انسان کی اور بعض کے نزدیک جمع نہیں بلکہ اسم جمع ہے کیونکہ جمع کے اوزان میں فعال نہیں آیا۔ پھر یہ یا توانس سے مشتق ہے اور یہ اس لیے کہ آدمی باہم ایک دوسرے سے مانوس و مالوف ہوتے ہیں یا انَسَ سے اور اٰنس کے معنی ہیں ظَھَرَ کے ( جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں ارشاد ہوا : اَنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا) اور چونکہ آدمی آپس میں ایک دوسرے پر ظاہر ہوتے اور دکھائی دیتے ہیں اس لیے انہیں ناس کہتے ہیں جس طرح جنوں کو ان کے مخفی اور پوشیدہ ہونے کے سبب سے جن کہتے ہیں النَّاس میں الف لام جنس کا ہے اور مِنْ موصوفہ ہے اس لیے کہ یہاں کوئی معہود نہیں اور بعض کہتے ہیں عہد کا اور معہود اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہے یا مَنْ کو موصولہ کہئے اور اس سے ابن ابی اور اس جیسے لوگوں کو مراد لیجئے کیونکہ وہ ان کفار میں داخل ہیں جن کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے بلکہ ان سے بڑھ کر ایک اور خصوصیت بھی رکھتے ہیں یعنی فریب، مکر، دھوکہ یہاں صرف خدا اور روز قیامت پر ایمان لانے کا خاص کر ذکر اس واسطے ہوا ہے کہ سلسلہ ایمان کی فہرست میں یہی دو باتیں مقصود اعظم اور مہتم بالشان ہیں۔ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ( حالانکہ وہ ایمان لائے نہیں) ان کے دعوئے باطل کی تردید ہے اور اگرچہ سیاق کلام کے اقتضاء کی وجہ سے اس کی جگہ وَمَا اٰمَنُوْا کہنا چاہئے تھا کہ ان کے قول کے بالکل مطابق ہوجاتا کیونکہ اس میں فاعل کی تصریح نہیں بلکہ فعل کی ہے لیکن اس کے برعکس وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جس قدر ان کی تکذیب میں مبالغہ ہے وہ مَا اٰمَنُوْا میں نہیں پایا جاتا کیونکہ انہیں ایماندار لوگوں کے جرگہ میں سے نکال دینا گزشہ زمانہ میں ان کے ایمان کی نفی کردینے سے زیادہ مؤکد ہے یہی وجہ ہے کہ نفی کی تاکید حرف ب کے ساتھ کی گئی۔
Top