Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اسماعیل کو اور ادریس اور ذوالکفل کو یاد کرو، یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے،
حضرت اسماعیل و حضرت ادریس و حضرت ذوالکفل ( علیہ السلام) کا تذکرہ ان آیات میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل ( علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا اور یہ فرمایا کہ یہ سب صابرین میں سے تھے۔ حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ سورة مریم میں گزر چکا ہے اور حضرت ذوالکفل کا نام یہاں قرآن مجید میں پہلی جگہ آیا۔ اور سورة ص میں بھی حضرت ذوالکفل کا تذکرہ ہے۔ وہاں فرمایا (وَاذْکُرْ اِسْمَاعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْکِفْلَ وَ کُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ ) (اور اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو یاد کیجیے اور یہ سب اچھے لوگوں میں سے ہیں) حضرت الیسع کا ذکر سورة انعام میں گزر چکا ہے یہاں حضرت ذوالکفل کے بارے میں لکھا جاتا ہے۔ احادیث مرفوعہ میں ان کے بارے میں بھی واضح معلومات نہیں ملتی ہیں، اسی لیے ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا انبیاء کے علاوہ صالحین میں سے تھے۔ حضرت ذوالکفل کون تھے ؟ تفسیر درمنثور میں حضرت ابن عباس و حضرت مجاہد وغیرھما سے کچھ باتیں نقل کی ہیں۔ بظاہر یہ سب اسرائیلی روایات ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ انبیاء سابقین میں سے ایک نبی تھے۔ انہوں نے اپنی امت کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ایسا ہے جو میری امت کے درمیان فیصلہ کرنے (یعنی قاضی بننے) کی ذمہ داری لیتا ہے اور میری شرط یہ ہے کہ جو شخص یہ عہدہ قبول کرے وہ غصہ نہ ہو۔ ان میں سے ایک جوان کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ میں اس کا ذمہ دار بنتا ہوں۔ تین مرتبہ یہی سوال و جواب ہوا۔ جب تین مرتبہ اس جوان نے ذمہ داری لے لی تو اس سے قسم کھلوائی۔ اس نوجوان نے قسم کھالی اور اس کو قضا کا عہدہ سپرد کردیا گیا۔ ایک دن دوپہر کے وقت شیطان آیا جبکہ یہ نوجوان قاضی نیند میں تھے۔ اس نے انہیں آواز دے کر جگایا اور ان سے کہا کہ فلاں شخص نے مجھ پر زیادتی کی ہے۔ میری مدد کیجیے۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر چل دیئے۔ تھوڑی دور چلے کہ شیطان اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گیا۔ چونکہ شیطان بےوقت مدعی بن آیا، اور ان کو سوتے سے جگایا پھر بھی غصہ نہ ہوئے اور جو ذمہ داری لی تھی اس پر قائم رہے۔ اس لیے ان کا نام ذوالکفل رکھ دیا گیا۔ یعنی ذمہ داری والا شخص۔ اس کو نقل کرنے کے بعد صاحب درمنثور نے بحوالہ عبدالرزاق و عبدبن حمید و غیرھما نقل کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہیں تھے لیکن بنی اسرائیل میں ایک صالح آدمی تھے جو روزانہ دن بھر نماز پڑھتے تھے۔ جب ان کی وفات ہوگئی تو ان کے بعد ایک اور شخص نے اسی طرح دن بھر نماز پڑھنے کا عہد کیا۔ چناچہ وہ اس پر عمل کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کا نام ذوالکفل (ذمہ داری والا شخص) رکھ دیا گیا۔ اس سلسلہ میں مفسرین نے سنن ترمذی سے بھی ایک حدیث نقل کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ذوالکفل بنی اسرائیل میں سے ایک شخص تھا جو کسی بھی گناہ سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک عورت آئی اس نے اس عورت کو اس شرط پر ساٹھ دینار دیئے کہ اس کے ساتھ برا کام کرے۔ جب وہ اس کے اوپر بیٹھ گیا تو وہ عورت کانپ گئی اور رونے لگی۔ وہ کہنے لگا تو کیوں روتی ہے میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو نہیں کی۔ وہ کہنے لگی کہ بات تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہ ایسا کام ہے جو میں نے کبھی نہیں کیا۔ ضرورت نے مجبور کیا اس لیے میں اس پر آمادہ ہوگئی۔ اس پر اس نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے ؟ یہ کہہ کر وہ ہٹ گیا اور وہ ساٹھ دینار بھی دے دیئے اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم اس کے بعد میں کوئی گناہ نہیں کروں گا۔ پھر اسی آنے والی رات میں مرگیا۔ صبح کو اس کے دروازہ پر یوں لکھا ہوا تھا کہ بلاشبہ اللہ نے کفل کو بخش دیا۔ امام ترمذی نے یہ واقعہ ابواب صفۃ القیامۃ میں نقل فرمایا ہے اور اس کو حدیث حسن بتایا ہے۔ لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ اسی شخص کا واقعہ ہو جس کو قرآن مجید نے ذوالکفل بتایا ہے اور اگر اسی شخص کا واقعہ ہو تو پھر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ذوالکفل نبی نہیں تھے۔ چونکہ انبیاء کرام نبوت سے پہلے بھی کبائر سے محفوظ ہوتے ہیں۔ پھر مزید بات یہ ہے کہ حدیث شریف میں ذوالکفل نہیں ہے۔ لفظی مشابہت کی وجہ سے مفسرین نے اس قصہ کو یہاں نقل کردیا۔
Top