Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 86
وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَ
: اور
اَدْخَلْنٰهُمْ
: ہم نے داخل کیا انہیں
فِيْ رَحْمَتِنَا
: اپنی رحمت میں
اِنَّهُمْ
: بیشک وہ
مِّنَ
: سے
الصّٰلِحِيْنَ
: نیکو کار (جمع)
ہم نے انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیا یقینا وہ (سب ہمارے) نیک بندوں میں سے تھے
اسمعیل ‘ ادریس اور ذوالکفل سب ہی صالح لوگ تھے : 85۔ اسمعیل (علیہ السلام) تو وہی ہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے تھے جن کو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب میں ذبح کرتے ہوئے دیکھا اور جس کی تعبیر کے سلسلہ میں انہوں نے دمشق سے اٹھا کر بیت اللہ کے قریب لا بسایا تھا اور جو ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ کے جد امجد تھے اور ادریس (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) کے بعد نبی ہوئے اور ان کا ذکر اس سے پہلے سورة مریم میں آیا ہے اور یہی وہ نبی ہیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ ان کو بھی زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا لیکن ان کے واپس آنے کا ذکر نہیں پڑھا لیکن اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے اور ” ذوالکفل “ کا فقط نام ہی آیا ہے ایک اس جگہ اور دوسری بار سورة ” ص “ میں اور دونوں جگہ آپ کو زمرہ انبیاء کرام (علیہ السلام) میں شمار کیا گیا ہے آپ کے حالات کا کوئی اجمالی یا تفصیل تذکرہ نہیں کیا گیا اور اس طرح نبی کریم ﷺ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ مروی نہیں ہے ۔ قرآن کریم نے آپ کو صابرین ‘ صالحین اور اخیار میں ہونے کی شہادت اور رحمت الہی میں داخل کرنے کی بشارت دی ہے ۔ سیر نگاروں نے ان کا نام الیسع (علیہ السلام) کے بعد دیا ہے اور بعض نے یونس (علیہ السلام) کے بعد اور عزیز (علیہ السلام) سے پہلے ذکر کیا ہے لیکن ہم اس جگہ ادریس (علیہ السلام) اور ذوالکفل (علیہ السلام) کا مختصر ذکر کرتے ہیں تاکہ ان کا تعارف ہوجائے ۔ سیدنا ادریس (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت : قرآن کریم میں سیدنا ادریس (علیہ السلام) کا ذکر صرف دوجگہ آیا ہے سورة مریم اور سورة الانبیاء میں اور دونوں جگہ پر فقط آپ کا نام آیا ہے علاوہ ازیں کچھ بیان نہیں کیا گیا ۔ پھر سیدنا ادریس (علیہ السلام) کے نام ‘ حسب ونسب اور زمانہ کے متعلق مؤرخین اور سیرت نگاروں کے درمیان بہت بڑا اختلاف ہے ۔ قرآن کریم نے بہت سے دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح بغیر کسی بحث کے نبوت اور رفعت مرتبت جیسی آپ کی صفات عالیہ کا ذکر کیا ہے اور صحیح احادیث میں بھی ان چیزوں کی کوئی وضاحت نہیں ملتی لہذا آپ کی زندگی کے متعلق جو کچھ میسر آئے گا وہ اسرائیلی روایات ہیں اور وہ بھی تضاد سے بھری پڑی ہیں ۔ کوئی روایت بتاتی ہیں کہ وہ نوح (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں اور ان کا اصل نام افنوخ ہے اور ادریس لقب ہے یا یہ کہ افنوخ نے عربی میں آکر ادریس کا تلفظ اختیار کرلیا ہے جو سریانی یا عبرانی میں افنوخ تھا ۔ دوسری روایت یہ بتاتی ہے کہ وہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں اور الیاس وادریس ایک ہی ہستی کے نام ولقب ہیں اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ادریس دو آدمیوں کا لقب ہے ایک نوح (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں اور دوسرے قوم بنی اسرائیل میں سے ایک نبی ہیں ۔ اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ تو اسرائیلیات کا بیان تھا اور وہی سے ہمارے ہاں روایات منتقل ہوئیں اور ہماری بعض کتب احادیث تک پہنچ گئیں ان میں بھی بہت کچھ مبالغہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ بات تفاسیر میں عام ہے کہ سیدنا ادریس (علیہ السلام) نے رمل کے نقوش کو بیان کیا اور آپ ہی وہ نبی ہیں جن کو ” ہر مس “ بلکہ ” ہر مس الہرامسہ “ کا لقب دیا گیا اور ان کی جانب بہت سی غلط باتیں منسوب کردی گئی ہیں جس طرح سیدنا سلیمان (علیہ السلام) اور سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے متعلق بیان کی جاتی ہیں بلکہ سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق ہی کچھ نہ کچھ غلط سلط بیان کیا گیا ہے ۔ صحیح احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ فقط یہ ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے سیدنا ادریس (علیہ السلام) سے چوتھے آسمان پر ملاقات کی اور علاوہ ازیں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ قصہ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اس لئے تفسیری روایات میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ قابل اعتبار نہیں اور بہت کچھ وہ ہے جس کو سنتے ہی رد کیا جاسکتا ہے کہ ان اسرائیلیات کو خواہ مخواہ مفسرین نے بیان کردیا اور بعض کو تحریر کرکے اس کی تردید بھی کردی گئی ہے ۔ ان سب روایات میں انتخاب کرکے اور چھانٹ کر جن کو بیان کیا جاتا ہے اور وہ اس طرح ہے کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے کعب احبار سے دریافت کیا کہ سیدنا ادریس (علیہ السلام) کے متعلق اس آیت (ورفعنہ مکانا علیا) کا کیا مطلب ہے ؟ تو کعب نے جواب دیا کہ ” اللہ تعالیٰ نے سیدنا ادریس (علیہ السلام) پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی ۔ اے ادریس ! تمام اہل دنیا جس قدر روزانہ نیک عمل کریں گے ان سب کے برابر میں تجھ کو ہر دن اجر عطا کروں گا ۔ سیدنا ادریس (علیہ السلام) نے یہ سنا تو ان کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے اعمال میں روز افزوں اضافہ ہو اور اس لئے میری عمر کا حصہ طویل ہوجائے تو اچھا ہے انہوں نے وحی الہی اور اپنے اس خیال کو ایک رفیق فرشتہ پر ظاہر کر کے کہا کہ اس معاملہ میں فرشتہ موت سے گفتگو کرو تاکہ مجھ کو نیک اعمال کے اضافہ کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے ، اس رہے تھے تو فرشتہ موت زمین کے لئے اتر رہا تھا وہیں دونوں کی ملاقات ہوگئی اور دوست فرشتہ نے فرشتہ موت سے حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کے معاملہ میں گفتگو کی ، فرشتہ موت نے کہا کہ ادریس کہاں ہیں ؟ اس نے کہا میری پشت پر سوار ہیں ۔ فرشتہ موت کہنے لگا کہ درگاہ الہی سے یہ حکم ملا ہے کہ ادریس (علیہ السلام) کی روح چوتے آسمان پر قبض کروں اس لئے میں سخت حیرت اور تعجب میں تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ ادریس (علیہ السلام) زمین پر ہیں ۔ اسی وقت فرشتہ موت نے دفن کردیئے گئے ، بہرحال اس روایت اور اس جیسی ساری دوسری روایات کو بھی اسلام میں کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے اس روایات کو درج کرنے کے بعد حافظ عماد الدین ابن کثیر (رح) نے بھی فرمایا ہے کہ یہ اسرائیلی خرافات میں سے ہی تعلق رکھتی ہیں اور ان کی روایتی اعتبار سے بھی ” نکارت “ واضح ہے ۔ بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ادریس بابل میں پیدا ہوئے اور وہیں نشو ونما پائی اور اوائل عمر میں ہی انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور جب وہ سن شعور کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا تب انہوں نے شریر اور مفسدوں کو راہ ہدایت کی تبلیغ شروع کی مگر مفسدوں نے ان کی ایک نہ سنی اور وہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیث (علیہ السلام) کی شریعت کے مخالفت ہی رہے ہاں ! ایک چھوٹی سی جماعت ہی مشرف بہ اسلام ہوئی ، آپ کی تبلیغ کے باعث آپ کی مخالفت اس حد تک بڑھی کہ آپ کو اپنے علاقہ سے ہجرت کرنا پڑی ۔ ہجرت کے ارادہ کا اظہار جب آپ نے اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش کیا تو ان پر یہ بات بہت شاق گزری وہ کہنے لگے کہ بابل جیسا وطن ہم کو کہاں نصیب ہوگا ؟ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) نے ان کو بہت تسلی دی اور فرمایا کہ اگر تم یہ تکلیف اللہ کی راہ میں برداشت کرو گے تو اس کی وسیع رحمت تم لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے گی اور اس کا نعم البدل تم کو دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت بھی سنورے گی تم ہمت نہ ہارو اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سرنیاز جھکا دو ۔ اس سے ان لوگوں کو تقویت ملی اور وہ آپ کے ساتھ ہجرت پر راضی ہوگئے ان کو ساتھ لے کر حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) مصر کی طرف ہجرت کر آئے ، آپ کی جماعت نے جب تیل کی روانی اور اس کی سرزمین کی شادابی دیکھی تو بہت خوش ہوئے اور حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) ہی نے ان لوگوں کو جو ہجرت کرکے آپ کے ساتھ آئے تھے بابلیون کے خطاب سے نوازا اور دریائے نیل کے کنارے ایک جگہ منتخب کرکے وہاں بس گئے اور آپ کے ارشاد فرمائے ہوئے اس جملہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابلیون نے اتنی شہرت حاصل کی کہ عرب کے علاوہ قدیم قوم کے ان لوگوں کو دوسروں نے ہمیشہ بابلیون ہی کے نام سے مخاطب کیا اور عربوں نے اس جگہ کا نام مصر بتایا اور اس کی وجہ تسمیہ اس طرح بیان کی کہ طوفان نوح کے بعد یہ مصر بن حام کی نسل کا مسکن وموطن بنا ۔ بہرحال حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) نے اس جگہ بھی اپنا پیغام رسالت ونبوت پہنچایا انہوں نے لمبی عمر پائی اور بہتر زبانوں پر ان کو عبور حاصل تھا ، لیکن یہ ساری باتیں تاریخی حیثیت کی ہیں اور آپ کی طرف بہت سارے علوم کی نسبت بتائی جاتی ہے جن میں ایسے علوم بھی بیان کئے گئے ہیں جن کو کسی صورت بھی آسمانی علوم قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت ہی کچھ بیان کیا ہے اگر تفصیل کی ضرورت ہو تو البدایہ والنہایہ کا مطالعہ کرلیں کیونکہ اس کا ترجمہ بھی اس وقت دستیاب ہے ۔ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کی تعلیم کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی توحید پر ایمان لانا ضروری بتایا اور قوم کو بتایا کہ وہ صرف خالق کائنات ہی کی پرستش کریں اور غیر اللہ کی پرستش سے نہایت سختی کے ساتھ منع کیا اور یہ بھی ان کو تلقین کی کہ وہ اس دنیا سے بےالتفاتی اور تمام امور میں عدل و انصاف کو پیش نظر رکھیں اور مقررہ طریقہ پر عبادت الہی ادا کریں اور اس طرح ان کو ایام بیض کے روزوں کا حکم بھی دیا اور دشمنان اسلام سے جہاد کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم بھی دیا اور طہارت ونظافت سے رہنا بھی ضروری قرار دیا اور ہر نشہ آور چیز سے پرہیز بھی ان کو سکھائی ۔ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) نے اپنے بعد آنے والے نبیوں کی پیش گوئی بھی کی اور ان کی نمایاں خصوصیات سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کو بتایا کہ میرے بعد آنے والے انبیاء کیسے ہوں گے ۔ 1۔ وہ ہر ایک بری بات سے پاک ہوں گے ۔ 2۔ وہ قابل ستائش اور فضائل میں کامل ہوں گے ۔ 3۔ اور وہ مستجاب الدعوات بھی ہوں گے اور ان کی دعوت کا خلاصہ اصلاح کائنات ہی ہوگا ۔ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کا حلیہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کا رنگ گندم گوں تھا اور قدوقامت درمیانہ تھی ، سر پر بال کم تھے یعنی داڑھی کی نسبت سرکے بال کم تھے اور آپ نہایت ہی خوبصورت اور خوبرو تھے ، داڑھی گھنی تھی اور رنگ روپ اور چہرہ کے خطوط میں ملاحت تھی ، بازو مضبوط تھے ‘ مونڈھے چوڑے تھے ‘ مضبوط ہڈی اور دبلے پتلے تھے ۔ سرمگیں چمکدار آنکھیں تھیں اور باوقار گفتگو کرتے تھے ، خاموشی پسند ‘ سنجیدہ اور متین تھے ، چلتے وقت نیچی نظر رکھتے تھے اور انتہائی فکر وخوض کے عادی تھے ، غصہ کم آتا تھا لیکن جب آتا تھا تو نہایت غضبناک ہوجاتے تھے لیکن غصہ جلد ہی اتر جاتا تھا ‘ باتیں کرتے وقت شہادت کی انگلی سے بار بار اشارہ کرتے تھے اور ہاتھ پر انگوٹھی پہنتے تھے حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) نے 82 سال کی عمر پائی ۔ آپ کی انگوٹھی پر الصبر مع ال ایمان باللہ یورث الظفر کے الفاظ کندہ تھے جس کے معنی ہیں کہ ” اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ ” صبر “ فتح مندی کا باعث ہے “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کمر پر پٹ کہ باندھا کرتے تھے جس پر تحریر تھا کہ الاعیاد فی حفظ الغروض والشریعۃ من تمام الدین وتمام الدین کمال المروہ “۔ یعنی حقیقی عیدیں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی حفاظت میں پوشیدہ ہیں اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے اور مروت میں کمال دین کی تکمیل ہے ۔ نماز جنازہ پڑھاتے تو ایک خاص پٹ کہ باندھتے تھے جس پر حسب ذیل جملے ثبت تھے السعید من نظر لنفسہ وشفاعتۃ عند ربہ اعمالۃ الصالحۃ جس کے معنی اس طرح ہیں کہ ” سعادت مند وہ ہے جو اپنے نفس کی نگرانی کرے اور اپنے پروردگار کے سامنے انسان کے شفیع اس کے اپنے نیک اعمال ہیں۔ “ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کی طرف بہت سے پند ونصائح اور آداب واخلاق کے جملے مشہور ومعروف ہیں اور آج وہ مختلف زبانوں میں ضرب المثل اور رموزواسرار کی طرح مستعمل ہیں ان میں سے چند ایک یہاں تحریر کئے جا رہے ہیں تاکہ بطور نمونہ محفوظ رہیں اور ہم بھی ان سے استفادہ کرسکیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ‘ آپ فرماتے تھے کہ : ا : اللہ تعالیٰ کی بیکراں نعمتوں کا شکر انسانی طاقت سے باہر ہے ۔ ب : جو شخص بھی علم میں کمال اور عمل صالح کا خواہشمند ہو اس کو جہالت کے اسباب اور بدکرداری کے قریب بھی نہ جانا چاہئے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہر فن مولا کاریگر سینے کا ارادہ کرتا ہے تو سوئی ہاتھ میں لیتا ہے نہ کہ ” برما “ یعنی ہر وقت یہ بات پیش نظر رہے ۔ ع ہم خدا خواہی وہم دنیاو وں ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ ج : دنیا کی بھلائی ” حسرت ہے “ اور دنیا کی برائی ” ندامت “ ۔ د : اللہ تعالیٰ کی یاد اور عمل صالح کے لئے خلوص نیت شرط ہے ۔ ہ : نہ جھوٹی قسمیں کھاؤ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے نام کو قسموں کے لئے تختہ مشق بناؤ اور نہ لوگوں کو قسمیں کھانے پر آمادہ کرو کیونکہ ایسا کرنے سے تم بھی شریک گناہ ہوجاؤ گے ۔ و : ذلیل پیشوں کو اختیار نہ کرو اور جانوروں کی جفتی کرانے پر اجرت نہ لو ۔ ز : اپنے بادشاہوں یعنی امراء کی اطاعت کرو اور اپنے بڑوں کے سامنے پست رہو اور ہر وقت حمد الہی سے اپنی زبان کو تر رکھو ۔ ح : یاد رکھو کہ حکمت روح کی زندگی ہے ۔ ط : دوسروں کی خوش عیشی پر حسد نہ کرو اس لئے کہ ان کی یہ مسرور زندگی چند روزہ ہے ۔ ی : جو شخص بھی ضروریات زندگی سے زیادہ کا طالب ہوا وہ کبھی قانع نہ رہا ۔ (تاریخ الخلفاء ج اول) تاریخ الحکماء ص 348 پر ” ہر مس “ ثالث کے تذکرہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ علماء کی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ طوفان نوح سے قبل دنیا میں جس قدر علوم شائع ہوئے ان سب کے معلم اول یہی ” ہرمس “ اول ہیں جو مصر کے حصہ اعلی کے باشندے تھے اور عبرانی ان کو خفوخ بھی مانتے ہیں جو پانچ چھ واسطوں سے آدم (علیہ السلام) سے ملتے ہیں ، ان علماء کا یہ بھی دعوی ہے کہ فلسفہ کی کتابوں میں جن علمی جوہر اور حرکات نجوم کا تذکرہ آتا ہے سب سے پہلے ان کا زکر ان ہی کی زبان سے ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہیکلوں کی تعمیر ‘ علم طب کی ایجاد ‘ ارض وسماوی اشیاء کے متعلق موزوں قصائد کے ذریعہ اظہار خیال بھی انہیں کی اولیات میں سے ہیں اور انہوں نے ہی سب سے پہلے طوفان کی اطلاع دے کر بندگان خدا کو ڈرایا اور بتایا کہ ان کو دکھایا گیا ہے کہ ایک آسمانی آفت ہے جو زمین کو پانی اور آگ میں لپیٹ رہی ہے انہیں یہ دیکھ کر علوم کی بربادی اور صنعت وحرفت کی تباہی کا خوف ہوا اس لئے انہوں نے مصر میں اہرام اور برابی بنائے (برابی کیا ہیں ؟ برابی ایسے ہیکل کو کہتے ہیں جو چلہ کشتی کے لئے چہار جانب سے بند ہوں) اور ان میں تمام صنائع اور نوایجاد آلات کی تصاویر بنوائیں اور تمام علوم کے حقائق واوصاف کو منقش کیا تاکہ یہ علوم وضاعات تا ابد باقی رہیں اور فنا کا ہاتھ ان کو گزند نہ پہنچا سکے ۔ (تاریخ الحکماء جلد اول) حکمت وفلسفہ کی قدیم کتابوں کی بعض باتوں سے قطع نظر بہت سی ان یا وہ گویوں اور بےسروپا باتوں کا یہ خلاصہ ہے جو حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کے متعلق افسانوی حیثیت میں گھڑا گیا ہے کہ جس کو نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ نقل صحیح اس کی تائید میں ہے بلکہ تحقیق اور علم تاریخ کے حقائق ان میں سے اکثر وبیشتر باتوں کی خرافات کو آج اسی طرح ظاہر کر رہے ہیں کہ جس کا انکار حقیقت کے انکار کے مترادف ہے مثلا اہرام برابی کی تاریخ آج جدید اکتشافات کی بدولت ہمارے سامنے بےنقاب ہے اور اہرام اور ان مقابر کی کھدائی نے علوم ونقوش اور صنائع کی تصاویر کے بنانے والوں اور ان کے مختلف زبانوں میں مختلف مدارج کے ترقی دینے والوں کے نام ‘ ان کے اجسام اور ان کے زر و جواہر کے خزانوں اور اسی طرح مختلف زبانوں کی تحریروں اور رسم الخط کی ترکیبوں کو سامنے لا کر روز روشن کی طرح آشکارا کردیا ہے کہ کہاں وہ حقیقتیں اور کہاں یہ دور ازکار باتیں آج مینا ‘ خوفو ‘ منقرع اور طوطا من خانم وغیرہ بادشاہوں کے حالات سے کون آشنا نہیں ۔ ہم نے ان بےسروپا باتوں کو مختصر نقل کردینا اس لئے مناسب سمجھا کہ یہ آگاہی رہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق ہمارے علماء وحکماء کی کتابوں میں بھی کس کس قسم کے دورازکار قصے درج ہیں ۔ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے وہی سچ اور حق ہے جو ہم کو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ملتا ہے یا پھر ان کی ترجمانی میں اگر کچھ صحیح جملے ملیں گے تو وہ تورات و انجیل سے ملیں گے ہاں ! وہ اقوال جو پیغمبرانہ تعلیمات کے شایان شان ہوں اور ان کی نسبت انبیاء کرام (علیہ السلام) سے کی گئی ہو تو ہم ان کو تاریخی لحاظ سے تسلیم کرلیں گے کہ اگر انہوں نے وہ باتیں نہ بھی کی ہوں گی تو کم از کم ان باتوں کے تسلیم کرلینے سے ہمارا نقصان تو نہیں ہوگا اور رہی ان کی نسبت تو وہ ہم نے نہیں دی بلکہ ہم کو ان کی طرف نسبت دی ہوئی کتب اسلامی سے ملی ہیں اس لئے سچائی کی چیز اگر کہیں سے بھی دستیاب ہوگی تو وہ بہرحال سچ تو ہوگی ۔ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کے حالات وواقعات کو ہم نے نہایت ہی اختصار سے ذکر کیا ہے جس کی اصل وجہ وہی ہے جا کا اوپر ہم نے ذکر کردیا ہے کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث میں آپ کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا گیا اور مفسرین ‘ علماء کرام ‘ اور حکماء نے جو کچھ بیان کیا ہے ان میں بہت زیادہ وہی ہے جس کے ذکر کرنے سے ذکر نہ کرنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے اس وجہ سے ان چند صفحات پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ آپ کی زندگی سے ہم کو جن بعض باتوں کا سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ : ا : انبیاء کرام (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں ان کے متعلق کوئی ایسی بات جو عصمت کے خلاف ہو بیان نہیں کی جاسکتی اور اس سلسلہ میں کسی نے بھی کچھ بیان کیا ہو بغیر حیل وحجت ہم اس کو رد کرسکتے ہیں کیونکہ وہ نہ قرآن کریم کا بیان ہو سکتا ہے اور نہ ہی صحیح احادیث کا اور علاوہ ازیں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے اس کے ہم قطعا مکلف نہیں ہیں ۔ ب : جن پند ونصائح کا ذکر کیا گیا ہے وہ بلاشبہ اسلام کی باتیں ہیں کیونکہ وہ سچ ہیں اور سچائی جہاں بھی ہو وہ بغیر کسی حیل وحجت کے قبول کی جاسکتی ہے اور قبول کی جانی چاہئے ، سچ اس بات کا محتاج نہیں کہ اس کا بیان کرنے والا کون ہے ؟ ہاں ! جس نے ایک بات بیان نہیں کی اس کی طرف اس کی نسبت جانتے بوجھتے ہوئے کرنا کسی حال میں درست نہیں ہو سکتا لیکن کسی کی طرف منسوب کی گئی بات کو رد بھی بغیر دلیل کے نہیں کیا جاسکتا ۔ ج : دین و دنیا دونوں میں مفید علوم حاصل کرنا اور ان کی تعلیم دینا بلاشبہ جائز اور درست امر ہے اور انسانیت کے لئے غیر مفید اور غیر نافع علوم سیکھنا اور سکھانا دونوں ہی صحیح نہیں بلکہ اسلام میں ان علوم سے پناہ مانگی گئی ہے اس لئے ایسے علوم کی نسبت انبیاء کرام (علیہ السلام) سے نہیں کی جاسکتی یہ شیطان ہی کے چیلوں کا کام ہے ۔ د : وہمی مفروضے اور دیوپری کی کہانیاں اگر کسی ضرورت کے تحت بیان کرنا ہی پڑیں تو ان کو بیان کرتے وقت اس طرح ہی بیان کرنا ضروری ہے کہ ان کا جھوٹ پڑھنے والوں پر واضح ہوجائے تاکہ وہ اس سے کوئی غلط راہنمائی حاصل نہ کرلیں اس کا انحصار یقینا بیان کرنے والوں ہی پر ہوتا ہے اس لئے یا تو ان کو بیان ہی نہ کیا جائے اگر کیا جائے تو اس کی وضاحت لازم وضروری ہے ۔ ہ : انبیاء کرام (علیہ السلام) میں سے کسی کا حسب ونسب اگر واضح نہ ہو تو بھی یہ جاننا چاہئے کہ ہو نجیب الطرفین ہی تھے اس لئے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے کہ کسی نبی (علیہ السلام) کے حسب ونسب میں کوئی اخلاقی کمزوری نہیں پائی جاتی تھی ہاں ! کفر وشرک دوسری بات ہے کیونکہ اس کا حسب ونسب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ و : جن انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ناموں کا ذکر قرآن کریم میں ہوا ہے وہ ان کے اصل نام تھے یا ان کے القاب وکنیت ہمیں یہ بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ان کے اصل نام تھے یا القاب و کنیت ؟ بہرحال ہم انہی ناموں سے ان کو یاد کریں گے ۔ تاریخی ناموں کو قرآن کریم کے ناموں پر ترجیح نہیں دے سکتے جیسا کہ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کو فنوخ یا افنوخ وغیرہ بیان کیا گیا ہے لیکن ہم ادریس کا لفظ چھوڑ کر فنوخ یا افنوخ نہیں کہیں گے ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت سیدنا ادریس (علیہ السلام) کو تاریخ میں فنوخ یا افنوخ بھی کہا گیا ہے اور یہی بات دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق یاد رکھنی چاہئے ۔ حضرت سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت : قرآن کریم میں حضرت سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) کا ذکر دو سورتوں میں آیا ہے ‘ سورة الانبیاء اور سورة ص میں لیکن دونوں ہی سورتوں میں فقط ان کا نام ذکر کیا گیا ہے علاوہ ازیں کسی طرح کی کوئی تفصیل نہیں اور نہ ہی مجمل طور پر ان کے متعلق کچھ کہا گیا ہے ۔ سورة الانبیاء میں اسماعیل (علیہ السلام) ادریس (علیہ السلام) ‘ اور ذوالکفل (علیہ السلام) کے تینوں نام اکھٹے مذکور ہیں اور سورة ص میں اسماعیل (علیہ السلام) ‘ الیسع (علیہ السلام) اور ذوالکفل (علیہ السلام) کے تین نام اکٹھے ذکر کئے گئے ہیں ۔ آپ کا حسب ونسب بھی کچھ مذکور نہیں اور آپ کس جگہ اور کس زمانہ میں ہوئے ؟ کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی جاسکتی جو کچھ بیان کیا جائے گا سوائے ظن و گمان کے کچھ نہیں ہوگا ۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالکفل ‘ الیسع (علیہ السلام) کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور الیسع (علیہ السلام) کے متعلق تورات میں بیان ہوا ہے کہ وہ یوسف (علیہ السلام) کے پوتا کے پوتا ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیسع اور الیاس دونوں آپس میں چچا زاد تھے ۔ اس لحاظ سے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) بھی نسل ابراہیمی ہی سے تعلق رکھتے تھے اور ممکن ہے کہ الیسع (علیہ السلام) ‘ الیاس (علیہ السلام) ‘ ادریس (علیہ السلام) اور حزقیل سب بنو قطورا ہوں اور چونکہ بنو قطورا کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے قطورا سے چار بیٹے ہوئے تھے اور چاروں کی نسل موجود تھی اور بعض نے ذوالکفل کو گوتم بدھ بھی کہا ہے لیکن حقیقت حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکاربالکل مختصر ہی ملتے ہیں اور اس طرح گویا ان لوگوں کے لئے اس میں ہدایت رکھی گئی ہے جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ماں باپ ‘ بیوی اور بچے کی بحثوں میں وقت ضائع کرتے رہتے ہیں کہ فلاں نبی کا نکاح کس نے کیا تھا ؟ کس کے ساتھ کیا تھا ؟ نکاح پڑھایا کس نے تھا ؟ اس کے گواہ کون کون لوگ تھے ؟ حق مہر کیا رکھا گیا تھا ؟ ان سے اگر یہ پوچھ لیا جائے حضرت سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) کا باپ کون تھا ؟ ان کی ماں کا نام کیا تھا ؟ اور پھر جب کوئی واضح بات نہ بتائی جاسکے تو عقیدہ یہ بنا لیا جائے کہ دراصل وہ بغیر ماں ‘ باپ کے پیدا ہوئے تھے ‘ کیوں ؟ جواب یہ ہے کہ چونکہ قرآن کریم میں اور حدیث صحیح میں ان کے ماں باپ کا کوئی ذکر نہیں آیا یا تو ان کا ذکر قرآن وحدیث سے بتاؤ یا یہ بات مان لو کہ ان کے ماں باپ موجود نہیں تھے ۔ بہرحال یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ حضرت سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) ‘ الیاس (علیہ السلام) وادریس (علیہ السلام) کی طرح اللہ کے نبی تھے لیکن ہم کو ان کے ماں باپ کا کچھ علم نہیں ہوا کہ ان کے نام کیا تھے اور وہ کونسا پیشہ اختیار کئے ہوئے تھے اور اس سے بڑھ کر ہم یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور یہ بھی کہ قوم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اور یہ کہ ان کو ہجرت کرنا پڑی یا نہیں ؟ ہمارے بعض مفسرین اور سیرت نگاروں نے ان کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ اگرچہ مختصر ہے تاہم انہوں نے اس میں چاشنی بھرنے کے لئے ایک داستان بیان کی ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ ہاں ! یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی داستان ہے جیسی داستانیں داستان گو گھڑتے رہے ہیں اور گرمی مجلس کے لئے ان کا یہ مشغلہ تھا ۔ اس طرح کی ایک داستان یہاں بھی بیان کی جاتی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ایک خانہ پری کے لئے لوگوں نے کیا کیا کیا ہے ؟ چناچہ کہا جاتا ہے کہ : ” جب اسرائیلی بنی حضرت الیسع (علیہ السلام) بہت بوڑھے ہوگئے تو ایک دن ارشاد فرمایا کہ کاش میری زندگی ہی میں کوئی شخص ایسا ہوتا جو میرا قائم مقام ہو سکتا اور مجھے یہ اطمینان ہوجاتا کہ وہ میری صحیح نیابت کرنے کا اہل ہے اس کے بعد انہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماع کیا اور فرمایا میں تم میں سے ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں بشرطیکہ وہ مجھ سے تین باتوں کا عہد کرے ۔ (1) دن بھر روزہ رکھے ۔ (2) شب کو یاد خدا میں مشغول رہے ۔ (3) اور کبھی غصہ نہ لائے ۔ یہ سن کر ایک ایسا شخص کھڑا ہوا جو اس وقت لوگوں کی نظر میں بےوقت نظر آتا تھا اور وہ کہنے لگا کہ اس خدمت کے لئے میں حاضر ہوں ۔ الیسع (علیہ السلام) نے اپنی تینوں شرطوں کو دوبارہ دہرایا اور دریافت کیا کہ تم ان تینوں کی پابندی کرو گے ؟ اس شخص نے جواب دیا ” بلاشبہ “ دوسرا دن ہوا تو الیسع (علیہ السلام) نے پھر اجتماع کیا اور کل کی بات کو دہرایا ‘ سب خاموش رہے لیکن وہ شخص پھر کھڑا ہوگیا اور آگے بڑھا اور اس نے خود کو اس خدمت کے لئے پیش کیا اور تینوں شرطیں پوری کرنے کا عہد کیا تب الیسع (علیہ السلام) نے اس کو اپنا خلیفہ بنا دیا ۔ ابلیس (علیہ السلام) سے یہ بات برداشت نہ ہوسکی تو اس نے اپنی ذریت کو جمع کیا اور کہا کہ ایسی تدبیر اختیار کرو کہ جس سے یہ شخص بہک جائے اور اپنی شرطوں پر قائم نہ رہ سکے ، شیاطین نے بہت کوشش کی مگر سب ناکام رہے تب ابلیس نے کہا کہ میں اس کام کو سرانجام دوں گا تم اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے ۔ الیسع (علیہ السلام) کے اس خلیفہ کا یہ دستور تھا کہ وہ دن رات میں صرف دوپہر کو تھوڑی دیر قیلولہ کرتا تھا اور کچھ سو کر تھکان رفع کرلیتا تھا ۔ چناچہ ایک روز ابلیس پراگندہ حال بوڑھے کی شکل میں اس وقت اس کے دروازہ تک پہنچا اور دروازہ پر ہاتھ مارا وہ شخص آرام چھوڑ کر آیا اور دریافت کیا ‘ کون ؟ ابلیس نے جواب دیا کہ ایک مظلوم وناتواں بوڑھا ۔ اس نے دروازہ کھول دیا اور حال دریافت کیا ۔ ابلیس نے کہا کہ میرے اور میری قوم کے درمیان خصومت ہے انہوں نے مجھ پر ظلم کر رکھا ہے اور داستان ظلم کو اتنا طول دیا کہ قیلولہ کا وقت ختم ہوگیا ۔ بنی اسرائیل کے اس امیر نے فرمایا ، اب تم جاؤ شام کو جو مجلس منعقد ہوگی تب تم آنا میں تمہاری داد رسی کروں گا وہ چلا گیا ۔ شام کو جب مجلس منعقد ہوئی تو خلیفہ نے دیکھا کہ وہ شخص موجود نہیں ہے اور مجلس برخواست بھی ہوگئی مگر وہ نہیں آیا ۔ صبح کو جب پھر مجلس میں بیٹھا تو چاروں طرف غور سے دیکھا کہ شاید اب آیا ہو مگر اس کو نہ پایا ، مجلس برخواست ہونے پر جب اس نے قیلولہ کے لئے تنہائی اختیار کی تو پھر کسی نے دروازہ پر دستک دی ، اس نے دروازہ کھولا تو اس بوڑھے کو موجود پایا اور اس نے کل کی طرح پھر گفت و شنید کی تب خلیفہ نے کہا میں نے تم سے کہا تھا کہ شام کی مجلس میں آنا مگر تم نہ آئے ؟ ابلیس نے جواب دیا میری قوم بہت ہی خبیث ہے جب آپ کی مجلس میں جاتی ہے تو آہستہ سے مجھ سے اقرار کرلیتی ہے کہ مقدمہ نہ کرو ہم تمہارا حق ضرور دے دیں گے لیکن آپ کی مجلس برخواست کردینے کے بعد پھر منکر ہوجاتی ہے ، خلیفہ نے کہا کہ آج شام کو ضرور آجانا میں آپ کی موجودگی میں حق رسی کر دوں گا ۔ اس گفت و شنید میں قیلولہ کا پھر وقت جاتا رہا اور خلیفہ کو نیند کی تکلیف نے بہت ستایا مگر شام کی مجلس حسب وعدہ منعقد کی اور لوگوں کی دادا رسی کے لئے بیٹھا اور چاروں طرف نگاہ پھرائی مگر اس بوڑھے کو نہ پایا اور صبح کی مجلس میں وہ حاضر ہوا لیکن اس بوڑھے کو اس مجلس میں بھی نہ پایا ۔ اب تیسرے دن خلیفہ کو نیند نے بہت ہی غلبہ کیا اور وہ عاجز آگیا اس نے اہل خانہ کو حکم دیا کہ آج دروازہ پر خاہ کوئی بھی آئے قیلولہ کے وقت دروازہ ہرگز نہ کھولنا ۔ خلیفہ ابھی لیٹا ہی تھا کہ فورا ابلیس بوڑھے کی شکل میں آموجود ہوا اور دروازہ پر دستک شروع کردی ۔ اندر سے جواب ملا کہ آج خلیفہ کا یہ حکم ہے کہ کسی کے لئے دروازہ نہیں کھولا جائے گا ۔ ابلیس نے کہا میں دو روز سے اپنے ایک اہم معاملہ میں حاضر ہو رہا ہوں اور خلیفہ نے مجھ کو اس وقت بلایا تھا اس لئے دروازہ کھول دو مگر دروازہ نہ کھولا گیا لیکن اہل خانہ نے دیکھا کہ باہر کا دروازہ بند ہونے کے باوجود وہ شخص اندر موجود ہے اور خلیفہ کے دروازہ پر دستک دے رہا ہے خلیفہ نے دروازہ کھولا اور گھر والوں سے کہا کہ میں نے تم کو منع کردیا تھا کہ آج دروازہ نہ کھولنا پھر یہ شخص کیسے داخل ہوگیا ساتھ ہی دروازہ پر نظر کی تو اس کو بند پایا اور بوڑھے کو اپنے قریب دیکھا تب خلیفہ حقیقت حال کو سمجھا اور اس نے ابلیس کو مخاطب کر کے کہا خدا کے دشمن کیا تو ابلیس ہے ؟ ابلیس نے کہا ہاں ! میں ابلیس ہوں تو نے مجھ کو جب ہر طرح تھکا دیا اور میری ذریت کسی طرح تجھ پر قابو نہ پا سکی تب میں نے آخری صورت یہ اختیار کی تھی تاکہ تجھ کو غضبناک کرو اور ایفائے شروط میں ناکام بنا دوں مگر افسوس کہ میں خود ہی ناکام رہا ، چناچہ اس واقعہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس کو ذوالکفل کے نام سے مشہور کردیا ۔ اس لئے کہ اس نے جن شرائط کا حضرت الیسع (علیہ السلام) سے تکفل کیا تھا اس کو پورا کر دکھایا ۔ (تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 190 ‘ 191) ابن کثیر (رح) نے مجاہد کی یہ روایت بلاشبہ بیان کی ہے لیکن یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے بھی کمزور ہے اور درایت کے لحاظ سے بھی محل نظر ہے جس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی اور اس سلسلہ کی دوسری روایت وآثار بھی اپنی کمزوری میں بالکل واضح ہیں اس لئے اس کو ایک کہانی اور قصہ ہی کہا جاسکتا ہے جو کسی داستان گو نے گھڑا ہے اور بزرگوں نے اس کو اس کی تفسیر کے طور پر اپنی تفسیر کی کتابوں میں درج کردیا ہے جس طرح اور بھی بہت سے قصے گھڑے گئے ہیں ، شاہ عبدالقادر (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) ‘ ایوب (علیہ السلام) کے بیٹے تھے اور انہوں نے حسبۃ للہ کسی شخص کی ضمانت کرلی تھی جس کی پاداش میں ان کو کئی برس قید کی تکالیف برداشت کرنا پڑیں جیسا کہ موضع القرآن میں سورة الانبیاء کی تفسیر میں آپ نے فرمایا ” کہتے ہیں ذوالکفل تھے ایوب کے بیٹے ایک شخص کے ضامن ہو کر کئی برس قید میں رہے اور للہ یہ محنت سہی ۔ (موضح القرآن) بعض مفسرین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ذوالکفل ‘ حزقیل (علیہ السلام) ہی کا لقب ہے اور بعض نے ” گوتم بدھ “ کا لقب بھی بتایا ہے اور اس کی یہ توجیہہ بیان کی ہے کہ اس کے دارالسلطنت کا نام ” کپل “ تھا جس کا معرب ” کفل “ ہے اور عربی میں ” ذو “ صاحب اور مالک کے لئے بولا جاتا ہے جیسا کہ صاحب مال کے لئے ” ذومال “ اور مالک شہر کے لئے ” ذوبلد “ بکثرت استعمال ہے اس لئے یہاں بھی کپل کے مالک کو ” ذوالکفل “ کہا گیا ہے ، پھر گوتھم کی توحید کا بیان بھی دیا گیا ہے کہ وہ ایک نہایت ہی موحد انسان تھا جو توحید الہی کی تعلیم دیتا تھا تاہم یہ سارے اقوال تخمینی ہیں اس سلسلہ میں حتمی بات نہیں کہی جاسکتی ۔ ہم تعصب کے قائل نہیں کہ اگر صحیح تاریخ سے یہ ثابت ہوجائے کہ قرآن کریم نے جن انبیاء کرام (علیہ السلام) کے صرف نام ذکر کئے ہیں ان کی مصداق فلاں برگزیدہ ہستی ہے تو صرف اس لئے انکار کردیا جائے کہ اس سے قبل چونکہ ایسی بات نہیں کہی گئی اس لئے ہم اس کو نہیں مانتے ۔ ہرگز نہیں بلکہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ تاریخی حقائق کی جستجو کا دروازہ قطعا بند نہیں اور ہر دن کئی کئی تحقیقات سامنے آتی ہی رہتی ہیں اور جدید انکشافات کو مکتشف کرتی جاتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے قرآن کریم اور احادیث رسول کے بیان کردہ ان واقعات کی تصدیق ہوتی چلی جا رہی ہے اس لئے اگر قرآن کریم کی بیان کردہ کسی ہستی کے متعلق مزید اکتشافات روشنی میں آئیں تو ہمارے لئے باعث انکار نہیں بلکہ ہمارے غیر پر مزید حجت و دلیل ہیں لیکن اس اقرار حقیقت کے باوجود اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ ضرور ہر شخص اس بات کو قبول کرلے نہیں بلکہ اس کی وسعت کو وسعت کے طور پر ہی باقی رہنا چاہئے اور جس کو یقین آجائے وہ مان جائے ورنہ ” ذوالکفل “ کو ہم ذوالکفل ہی کہتے رہیں گے ہمیں اس کو ” گوتم بدھ “ کہنے کی کوئی مجبوری لاحق نہیں ۔ ہمارے لئے دنیا کے مختلف گوشوں میں خدا کے فرستادہ نبیوں پر ایمان لانے کے لئے وہ تینوں واقعات کافی لگتے ہیں کہ جو دین اسلام کا طغری امتیاز ہیں یعنی یہ کہ ارشاد الہی ہے (آیت) ” وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر “۔ کوئی قوم بھی ایسی نہیں گزری جس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو ۔ دوسری یہ کہ (آیت) ” لا نفرق بین احد من رسلہ “۔ کہ ہم اللہ کے نبیوں اور رسولوں میں اختلاف تسلیم نہ کریں اور تیسرے یہ کہ (آیت) منھم من قصصنا علیک ومنھم لم نقصص علیک “۔ بعض نبیوں کا ہم نے تم کو نام لے کر یہ ذکر سنا دیا اور بعض کے واقعات تم کو نہیں سنائے ۔ اس لئے ایمان لانے کے لئے یہی تینوں باتیں کفایت کرتی ہیں اور یہی ہمارا ایمان ہونا ضروری اور لازمی ہے ۔ اس لئے اس صاف اور واضح عقیدہ کے بعد اگر ہمارے سامنے کسی ملک اور کسی خطہ کے انبیاء ورسل کے واقعات نہیں بھی آئے تو اس کے وجوہ واسباب دوسرے ہیں لیکن جہاں تک ان پر ایمان لانے کا تعلق ہے وہ اس اجمال کے ساتھ بھی کافی ہے اس سلسلہ میں احتیاط کی راہ یہ ہے کہ جس کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں نہیں ہے ہم اپنی طرف سے کسی کا نام نہیں لے سکتے کیونکہ غیر نبی کو نبی ماننا بھی ویسا ہی کفر ہے جیسا کہ کسی نبی کو نبی نہ ماننا کفر ہے ۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص کی چچا زاد بہن تھی جو اس کو بہت محبوب تھی اور وہ اپنے دل میں اس کی خواہش رکھتا تھا اس نے اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہا لیکن اتفاق یہ ہوا کہ قحط سالی نے اس علاقہ کو آلیا جب کہ وہ شخص ایک مالدار آدمی بھی تھا بھوک سے تنگ آکر ایک دن اس کی اس چچا زاد نے دست طلب دراز کیا یعنی کچھ مانگ لیا اور جو مانگا وہ ایک خاص رقم یعنی ایک سو بیس اشرفیاں تھیں ۔ وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی چچا زاد کو اس کا سوال پورا کرنے کا وعدہ کیا لیکن ساتھ ہی اپنی طلب کا سوال بھی رکھ دیا چناچہ اس لڑکی نے مجبورا اس کی بات کو مان لیا اور جب اس کا وہ چچا زاد اس کی طرف مائل ہوا تو اس نے ایک بار پھر کہہ دیا کہ اللہ سے ڈرو اور ناجائز طریقہ سے میری عصمت برباد نہ کرو۔ ” اللہ سے ڈرو “ کے الفاظ نے اس مرد کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ اس کو چھوڑ کر الگ ہوگیا لیکن اس کے باوجود اس نے وہ وعدہ کی گئی رقم اس کو دے دی اور اس کا یہ عمل بارگاہ رب العزت میں منظور ہوگیا ۔ یہ واقعہ یا اس طرح کا کوئی واقعہ امام احمد (رح) نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک روایت میں نقل کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص ” کفل “ تھا اور وہ انتہا درجہ کا فاسق وفاجر تھا ۔ ایک مرتبہ اس کے پاس ایک حسین و جمیل عورت آئی ” کفل “ نے اس کو ساٹھ دینار دے کر زنا پر راضی کرلیا لیکن جب اس عورت کے ساتھ مشغول ہونے کا ارادہ کیا تو وہ کانپنے اور زار زار رونے لگی ” کفل “ نے دریافت کیا کیوں روتی ہو کیا مجھ سے نفرت ہے ؟ عورت نے جواب دیا یہ بات تو نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے ساری عمر کبھی اس بدعملی کو نہیں کیا مگر آج ضرورت اور پیٹ کی خاطر اپنی عصمت کو برباد کرا رہی ہوں ، بس یہ نشتر ہے جس نے مجھے آہ وزاری پر مجبور کردیا ہے ” کفل “ نے یہ سنا تو فورا اس سے الگ ہوگیا اور کہنے لگا جو کار بد تو نے کبھی نہیں کیا آج وہ محض فقروفاقہ کے لئے کرے یہ نہیں ہو سکتا جا عصمت وعفت کے ساتھ اپنے گھر واپس چلی جا اور یہ دینار بھی تیری ملک ہیں ان کو اپنے کام میں لا اور پھر کہنے لگا قسم بخدا آج کی گھڑی سے ” کفل “ اب کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرے گا ۔ اس واقعہ سے اٹھا کر بعض نے اس کو ” ذوالکفل “ بنا دیا ہے جو سراسر جھوٹ اور زیادتی ہے حالانکہ اس روایت کے آخر میں یہ بھی موجود ہے کہ ” کفل “ اتفاق سے اسی رات وفات پا گیا اور صبح لوگوں نے دیکھا کہ غیب سے اس کے دروازے پر یہ بشارت لکھ دی گئی تھی کہ ” کفل کو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا “۔ قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس وقت جو تذکرہ بیان کیا جا رہا ہے وہ ذوالکفل (علیہ السلام) کا ہے ” کفل “ کا نہیں اور وہ غالبا وہی کفل ہے جس کا ذکر بغیر نام بخاری ومسلم میں بھی کیا گیا ہے بہرحال اس تذکرہ کی اس ” کفل “ کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں کوئی آدمی اس شبہ میں مبتلا نہ ہو۔ بلاشبہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے نسل وخاندان ‘ رنگ وروپ ‘ ملک وقوم اور اس طرح کے دوسرے ہر طرح کے تفرقہ سے جدا اور بالا ہو کر یہ اعلان کیا ہے کہ اللہ ایک ہے تو بلاشبہ اس کی صداقت بھی ایک ہے اور ایک ہی ہونا چاہئے اور بلاشبہ وہ ایک ہی ہے البتہ اس زمانہ کے نشو وارتقا اور امم واقوام کے ذہنی وعقلی افکار کے درجات تفاوت کے مطابق اپنے وجود اور حقیقت کی وحدت کو قائم رکھتے ہوئے قانون فطرت کے مطابق تفصیلات وجزئیات کے تفاوت مراتب کو تسلیم کیا ہے یہ صداقت اور حقیقت ” اسلام “ ہے جو اپنی وحدت کے ساتھ ساتھ اقوام وامم اور مختلف زمانوں میں آغاز سے لے کر انجام تک متفاوت درجات و مراتب میں کائنات کی رشد وہدایت کا کفیل رہا ہے اس لئے اس کی تعلیم کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ اور ہر قوم کے اندر اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ورسول پیغام صداقت لے کر آئے ہیں اس لئے ایک مسلم و مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ اس عقیدہ کا اعلان کرے کہ ہم خدا کے کسی بھی نبی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہر نبی ورسول پر ایمان لاتے ہیں خواہ ہم اس کے نام ومقام ‘ اس کے خاندان اور برادری ‘ اس کے باپ دادا اور اس کے بیوی بچوں سے آگاہ ہوں یا نہ ہوں ۔ اس لئے بلاشبہ ہم حضرت سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) کے متعلق اس طرح کا علم نہیں رکھتے اور ان کے زمانہ اور علاقہ کا تعین نہیں کرسکتے ‘ ان کے باپ دادا کے ناموں سے کلی طور پر ہم واقف نہیں تاہم ان کو اللہ کا ایک نبی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اور ایک مومن کے لئے یہی تصدیق ضروری قرار دیتے ہیں اور قرآن کریم نے بھی ہماری یہی راہنمائی کی ہے ‘ چناچہ ارشاد الہی اس طرح ہے کہ : (آیت) ” وکلا نقص علیک من انباء الرسل مانثبت بہ فوادک وجآءک فی ھذا الحق وموعظۃ وذکری للمؤمنین “۔ (ھود 11 : 120) (آیت) ” افلم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم ولدارالاخرۃ خیر للذین اتقوا افلا تعقلون “۔ (یوسف 12 : 109) (آیت) ” لقد کان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب “۔ (یوسف 12 : 111) (آیت) ” کذلک نقص علیک من انبآء ماقد سبق وقد اتینک من لدنا ذکرا “۔ (طہ 20 : 99) ان آیات کریمات کا الترتیب ترجمہ یہ ہے کہ : ” اور اے پیغمبر اسلام ! ﷺ رسولوں کی سرگزشتوں میں سے جو جو قصے ہم تجھ کو سناتے ہیں تو ان سب میں یہی بات ہے کہ تیرے دل کو تسکین دے دیں اور پھر ان کے اندر تجھے جو امر حق مل گیا اور نصیحت مل گئی اور یاد دہانی ہے مومنوں کے لئے “ (ھود 11 : 120) ” کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر سیر نہیں کی تاکہ وہ دیکھتے کہ ان سے اگلوں کا انجام کیا ہوا اور بلاشبہ مقام آخرت ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو پرہیز گار ہیں پس کیا وہ سمجھتے نہیں ؟ “ (یوسف 12 : 109) ” بلاشبہ ان نبیوں کے حالات وواقعات میں اہل عقل و دانش کے لئے سامان عبرت ہے “ (یوسف 12 : 111) اے پیغمبر اسلام ! ﷺ اسی طرح ہم گزری ہوئی سرگزشتوں میں سے خبریں تجھے سناتے ہیں اور بلاشبہ ہم نے اپنے پاس سے تجھے ایک سرمایہ نصیحت عطا فرما دیا ہے ۔ “ (طہ 20 : 99) ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اسی طرح کی راہنمائی ان قصص سے حاصل کریں اور بجائے اس کے کہ ہم ان کے ماں ‘ باپ اور ان کے بیوی ‘ بچوں اور ان کے خاندان وعلاقوں کی چھان بین کرتے رہیں وہ سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں جو سبق دینے کے لئے ان قصص کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر کی آیات کریمات سے خود اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے ، اب ہم اس مختصر سرگزشت کو ختم کرتے ہوئے ان چند باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے لئے اس قصہ سے اخذ کرنا ضروری ہے ۔ (1) ۔ جن انبیاء ورسل کے نام قرآن کریم میں مذکور ہیں ان کے ناموں کے ساتھ اور جن کے نام مذکور نہیں ہیں ان کو بغیر نام لئے ایمان لانا ضروری ہے اور ہر نبی ورسول کا کیا ہوا کام ہمارے لئے اپنے اندر ہدایت و راہنمائی رکھتا ہے اس لئے بھی کہ ان سب کا پیغام ایک ہی تھا اور اس لئے بھی کہ وہ سب ایک ہی چشمہ سے سیراب ہوئے ۔ (2) ۔ جب تک سلسلہ نبوت جاری تھا بلاشبہ ساری قوموں میں رسول ونبی آتے رہے اور ان سب پر ہمارا یمان ہے لیکن جب نبوت کا سلسلہ نبی اعظم وآخر ﷺ پر ختم کردیا گیا تو آپ کے بعد نبوت کا دعوی بھی کفر ہے اور کسی دعویدار کو ماننا اور یقین کرنا بھی بلاشبہ کفر ہے ۔ خواہ وہ کوئی ہو اور کون ہو اور کس علاقہ میں ہو ؟ ۔ (3) ۔ کسی نبی ورسول کو ماننے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کے متعلق اس کے خاندان ‘ علاقہ ‘ اس کی عمر ‘ اس کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے اور اس طرح کی دوسری باتوں سے کلی طور پر واقف ہوں ، ہمارے لئے فقط یہ ضروری ہے کہ جن ناموں کا ذکر قرآن کریم یا صحیح احادیث میں آیا ہے ان کے ناموں کا ذکر کریں اور جن کے ناموں کا ذکر نہیں کیا گیا ان میں سے کسی کا کوئی نام لے تو اس کو موضوع بحث نہ بنائیں ۔ تاریخی باتوں کو وہی اہمیت دیں جو انکو دی جاسکتی ہے ان کو قرآن وحدیث کی طرح تسلیم نہ کریں ۔ (4) ۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہیں جو دوسرے انسانوں کے لئے کسی طرح کے وہم کا سبب بنے کیونکہ کوئی نبی ورسول بھی ادہام پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ لوگوں کے ادہام کو مٹانے کے لئے وہ مبعوث ہوئے مثلا ذوالکفل کے متعلق جو ابلیس کی کہانی گھڑ کر بیان کی گئی ہے اس کو تسلیم کرنے کے بعد مختلف طرح کے ادہام جنم لیتے ہیں اور وہم پرست ان سے فائدے حاصل کرتے رہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے تاکہ قوم مسلم سے یہ ادہام ختم ہو ۔ (5) ۔ ہر نبی ورسول معصوم تھا اس لئے اس سے کوئی ایسا کام سرزد نہیں ہوا تھا جو لوگوں کی نگاہ میں بھی برا ہو اور بچہ بچہ اس کی برائی کو جانتا ہو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ فقط بھول اور نسیان کے شکار ہو سکتے تھے اور ان میں سے بعض ہوئے بھی لیکن کوئی نبی ورسول جب اس کو معلوم ہوگیا کہ یہ اس کی بھول ہے تو فورا اس نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ کوئی انسان بھی خواہ کتنا ہی نیک اور پاکباز کیوں نہ ہو علاوہ ان برگزیدہ لوگوں کے معصوم نہیں تھا ‘ نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا ۔ (6) ۔ عصمت انبیاء جب متفق علیہ مسئلہ ہے تو کوئی بات بھی جو عصمت کے خلاف ہو قرآن وسنت میں نہیں بیان کی گئی یہ بھی ہمارا ایمان ہے اور جب کوئی بات اس طرح کی معلوم ہو تو اس کا بلا جھجھک انکار کردینا ضروری ہے اس کی تصدیق کسی حال میں جائز اور درست نہیں ہے اس طرح کی جتنی باتیں لوگوں نے بیان کی ہیں وہ سب اسرائیلیات سے تعلق رکھتی ہیں اور کتاب وسنت میں ایک بھی ایسی بات بیان نہیں ہوئی اس اصول کو ہرگز ہرگز نہیں بھولنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کی پیروی کی توفیق دے ۔ گزشتہ آیت 85 میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں لینے کا اعلان الہی : 86۔ سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) ‘ سیدنا ادریس (علیہ السلام) اور سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) کو اپنی خاص رحمت میں لینے کا ذکر اس جگہ اس لئے کیا گیا کہ دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح ان نبیوں اور رسولوں کے متعلق بھی بائبل میں بیشمار باتیں درج کی گئی ہیں جو نبوت و رسالت کے شایان شان نہیں ہیں ان سب کو بیان کرکے ان کو رد کرنے کی بجائے بہترین طریقہ اختیار فرمایا گیا کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیا تھا اور وہ اللہ کے نیک بندوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور اس طرح بنی اسرائیل کو واضح کردیا کہ تمہاری ساری داستانیں من گھڑت ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے گھڑی تھیں اور ان اللہ کے بندوں کے ذمہ تھوپ دی تھیں یہ لوگ یقینا ان کے مرتکب نہیں پائے گئے تھے اور تردید کا یہی طریقہ قرآن کریم کے مزاج کے مطابق تھا جو اختیار فرمایا گیا ۔
Top